عِشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم
- عشق رسول
- حُکَّام کی خوشامد سے اِجتِناب
- سیرت کی جھلکیاں
- سونے کا مُنْفَرِد انداز
- آداب ِ حدیث پاک
- مدینہءپاک کی چڑیوں کا ادب
- مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام
- بخار جاتا رہا
- بیداری میں دیدارِ مصطَفٰی
- امام قسطلانی کی تحسین
- تعظیمِ ساداتِ کرام
- دربارِ رسالت میں انتظار
عِشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سراپا عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کا نُمُونہ تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نعتیہ کلام (حدائقِ بخشش شریف) اس اَمرکا شاہد ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نوکِ قلم بلکہ گہرائی قَلب سے نِکلا ہوا ہر مِصرَعَہ آپ کی سروَرِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم سے بے پایاں عقیدت و مَحَبَّت کی شہادت دیتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کبھی کسی دُنیوی تاجدار کی خوشامد کے لیے قصیدہ نہیں لکھا، اس لیے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور تاجدارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کی اِطاعت و غلامی کو دل وجان سے قبول کرلیا تھا۔ اس کا اظہار آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح فرمایا:
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
(تذکرہٗ امام احمد رضا ص۹ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)
حُکَّام کی خوشامد سے اِجتِناب
ایک مرتبہ رِیاست نانپارہ (ضِلع بہرائچ یوپی) کے نواب کی مَدح میں شعراء نے قصائد لکھے ۔کچھ لوگوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی گزارِش کی کہ حضرت آپ بھی نواب صاحِب کی مَدح میں کوئی قصیدہ لکھ دیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے جواب میں ایک نعت شریف لکھی جس کا مَطْلَع ( غزل یا قصیدہ کے شروع کا شعر جس کے دونوں مصرو ں میں قافیے ہوں وہ مَطْلَع کہلاتا ہے) یہ ہے۔
وہ کمالِ حسنِ حضورہے کہ گمانِ نقص، جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
اور مَقْطَع (غزل یا قصیدہ کا آخری شعر جس میں شاعر کا تخلّص ہو وہ مَقْطَع کہلاتا ہے) میں “نانپارہ” کی بندِش کتنے لطیف اشارہ میں ادا کرتے ہیں
کروں مدح اہلِ دُوَل رضاؔپڑے اس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین “پارہ ناں” نہیں
فرماتے ہیں کہ میں اہلِ ثروت کی مَدح سرائی کیوں کروں۔ میں تو اپنے کریم اور سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کے در کا فقیر ہوں۔ مرا دین ”پارہ نان ” نہیں۔ ”نان” کا معنیٰ روٹی اور ”پارہ” یعنی ٹکڑا۔ مطلب یہ کہ میرا دین روٹی کا ٹکڑا نہیں ہے جس کے لیے مالداروں کی خوشامدیں کرتا پھروں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ میں دنیاکے تاجداروں کے ہاتھ بکنے والا نہیں ہوں۔
(تذکرہ امام احمد رضا ص۹ مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
سیرت کی جھلکیاں
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے ، اگر کوئی میرے دل کے دو ٹکڑے کردے تو ایک پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اور دوسرے پرمُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم لکھا ہوا پائے گا۔(سوانح امام احمد رضا ،ص ۹۶ ، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)
تاجدارِ اہلسنّت ، شہزادہ اعلٰیحضرت حُضور مفتی اعظم ھند مولٰینا مصطفٰے رضا خان علیہ رحمۃ الحنّان ”سامانِ بخشش” میں فرماتے ہیں۔
خدا ایک پر ہو تو اِک پر محمد
اگر قَلب اپنا دو پارہ کروں میں
مَشائخِ زمانہ کی نظروں میں آپ واقعی فَنافِی الرَّسول تھے۔ اکثر فراقِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں غمگین رہتے اور سرد آہیں بھرتے رہتے۔جب پیشہ ور گستاخوں کی گُستاخانہ عبارات کو دیکھتے تو آنکھوں سے آنسوؤں کی جَھڑی لگ جاتی اور پیارے مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کی حمایت میں گستاخوں کا سختی سے رَدّ کرتے تاکہ وہ جھنجھلا کر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بُرا کہنا اور لکھنا شروع کردیں۔ آپ اکثر اس پر فخر کیاکرتے کہ باری تعالیٰ نے اس دور میں مجھے ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کے لیے ڈھال بنایا ہے۔ طریقِ استعمال یہ ہے کہ بدگویوں کا سختی اور تیز کلامی سے ردّ کرتا ہوں۔ کہ اس طرح وہ مجھے برا بھلا کہنے میں مصروف ہوجائیں۔ اس وقت تک کے لیے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کی شان میں گستاخی کرنے سے بچے رہیں گے۔ حدائقِ بخشش شریف میں فرماتے ہیں ۔ ؎
کروں تیرے نام پہ جاں فِدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
غُرَباء کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے، ہمیشہ غریبوں کی اِمداد کرتے رہتے ۔بلکہ آخِری وَقت بھی عزیز و اقارِب کو وصیّت کی کہ غُرَباء کاخاص خیال رکھنا ۔ان کو خاطِر داری سے اچھے اچھے اور لذیذ کھانے اپنے گھر سے کِھلایا کرنا اور کسی غریب کو مطلق نہ جھڑکنا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر تصنیف و تالیف میں لگے رہتے۔ نماز ساری عمر باجماعت ادا کی ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خوراک بہت کم تھی، اور روزانہ ڈیڑھ دو گھنٹہ سے زیادہ نہ سوتے ۔(حیات اعلٰی حضرت ، ج ۱، ص ۹۶، مکتبۃ المدینہ کراچی)
سونے کا مُنْفَرِد انداز
سوتے وَقت ہاتھ کے اَنگوٹھے کو شہادت کی اُنگلی پر رکھ لیتے تاکہ اُنگلیوں سے لفظ “اﷲ”بن جائے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پیر پھیلا کر کبھی نہ سوتے، بلکہ دا ہنی کروٹ لیٹ کر دونوں ہاتھوں کو ملا کر سر کے نیچے رکھ لیتے اورپاؤں مبارَک سمیٹ لیتے۔ اس طرح جسم سے لفظ”محمّد” بن جاتا۔ (حیات اعلٰی حضرت ، ج ۱ ،ص ۹۹، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
یہ ہیں اﷲ کے چاہنے والوں اور رسولِ پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کے سچے عاشِقوں کی ادائیں۔
نامِ خدا ہے ہاتھ میں نامِ نبی ہے ذات میں
مُہرِ غلامی ہے پڑی، لکھے ہوئے ہیں نام دو
آداب ِ حدیث پاک
ہم جس طرح اسلافِ صالحین سے آدابِ حدیث شریف کے متعلق پڑھتے سنتے آرہے ہیں اعلیٰ حضرت اس کی عملی تفسیرتھے،حدیثِ پاک کے ادب کے حوالے سے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
- آپ درسِ حدیث بحالت قعود(دو زانوں بیٹھ کر) دیا کرتے ۔
- احادیث کریمہ بغیر وضونہ چھوتے اور نہ پڑھایا کرتے ۔
- کتب ِ احادیث پر کوئی دوسری کتا ب نہ رکھتے۔
- حدیث کی ترجمانی فرماتے ہوئے کوئی شخص درمیانِ حدیث اگر بات کاٹنے کی کوشش کرتا تو آپ سخت ناراض ہو جاتے،یہاں تک کہ جوش سے چہرہء مبارک سرخ ہو جاتا۔
- حدیث پڑھاتے وقت دوسرے پاؤں کو زانوپر رکھ کر بیٹھنے کو ناپسند فرماتے ۔
(امام احمد رضا اور درسِ ادب از مفتی فیض احمد اُویسی مطبوعہ مکتبہ اہلِ سنت فیصل آباد ص 16)
مدینہءپاک کی چڑیوں کا ادب
مولانا فیض احمد اویسی صاحب اعلیٰ حضرت کے عشق و ادب پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں:
پارہ ء دل بھی نہ نکلا تم سے تحفے میں رضا
اُن سگانِ کو سے اِتنی جان پیاری واہ واہ
دیارِ حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے کتوں کو دل کا نذرانہ پیش کرنے کے علاوہ امام احمد رضا شہر ِحبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی چڑیوں کو دعوتِ شوق پیش کرتے ہیں کہ:
صحرائے مدینہ کی چڑیو! آؤ میں تمہاری بلائیں لوں ۔تمہارے لئے اپنے جسم کا پنجرہ بناؤں ۔اس میں تمہارے بیٹھنے کے لئے اپنے دونینوں کی جگہ بناؤں۔تمہارے کھانے کے لیے اپنے کلیجے کا چوگا بنا کر حاضر کروں۔اگر پانی مانگو تو آنسوؤں سے اپنی ہتھیلیاں بھرکر پیش کر وں۔اوراگر تمہیں دھوپ کی شدت سے اذیت ہو تو تم پر اپنے بالوں کا سایہ کردوں ۔سبحان اللہ بزبان ہندی شہر حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی چڑیوں کی دعوت کا منظر ملاحظہ ہو:
میں بھارو چھنے من کا پنجر ابناؤں
نینن کی رکھ دیوں د ورکریّاں
میں اپنے کر کر جوا کا چوگا بناؤں
جو جل مانگو روروبھر دیوں تلیّاں
واہوماں تمکا جوگھا مے ستاوے
کیسن کی کردیوں تم پر چھیّاں
عاشق اور پھر عشق حبیب خداصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی شان کیا ہے ۔ امام احمد رضا کو قدرت نے کتنی فیاضی کے ساتھ یہ دولتِ عشق عطا فرمائی ہے۔ (امام احمد رضا اور درسِ ادب از مفتی فیض احمد اُویسی مطبوعہ مکتبہ اہلِ سنت فیصل آباد ص 24)
مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام
اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بے مثال عشق کا اظہار آپ کے اُس منظوم سلام سے بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں علماء نے ارشاد فرمایا ہے کہ اعلیٰ حضرت اگر اور کوئی کام نہ بھی کرتے تو یہ سلام ہی آپ کی عظمت کے لیے کافی تھا ۔
جی ہاں! یہ وہ سلام ہے جس کی گونج پا ک و ہند کے گوشے گوشے میں سنائی دیتی ہے بلکہ یہاں سے نکل کر پوری دنیا میں یہ سلام پڑھا جار ہا ہے۔مساجد میں نماز ِ جمعہ کے بعد اور محافلِ میلا د کے اختتام پر اس کو بطورِخاص پڑھا جاتا ہے ،اردو جاننے والوں میں شاید ہی کو ئی ایسا ہو جسے اس سلام کا کوئی شعر یاد نہ ہو ۔
علمائے کرام ارشاد فرماتے ہیں’’دو کلام‘‘سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں بہت مقبول ہیں ،ایک اردو کا اور ایک عربی کا،عربی کا تو’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ہے اور اُردو کا یہی اعلیٰ حضرت کا لکھا ہوا سلام’’مصطفی جان ِرحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ہے ۔
اس کی قبولیت میں کیسے شک ہو سکتا ہے جبکہ سنہری جالیوں کے رو برو زائرین جب سلام پیش کرتے ہیں تو اس مبارک سلام کے چند اشعار بھی سرکا ر صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں ۔
اس سلام کے والہانہ پن کی خصوصیت یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے پیارے آقا و مولیٰ صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کے ہر ہر عضوِ پاک پر الگ الگ سلام پیش کیا ہے جس سے آپ کے عشقِ رسول صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا اور فناء فی الرسول صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم ہونے کا بخوبی اندازہ ہو تا ہے۔
یہ سلام جہاں عشقِ رسول صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا شاہکار ہے ،وہیں اعلیٰ حضرت کے فنی تبحر کی گواہی بھی دے رہاہے ۔آپ کا یہ سلام ایک سو بہتر اشعار پر مشتمل ہے۔
( فیضان اعلیٰ حضرت ص281 مطبوعہ مکتبہ شبیر برادرز لاہور)
بخار جاتا رہا
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی سرکا ر صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا کرتے۔ دوسرے حج کے موقع پر جب آپ جدہ پہنچے تو آپ کو بخار ہو گیا،آئیے آگے کا واقعہ خوداعلیٰ حضرت سے سنتے ہیں:
’’تین روز جَدَّہ میں رہنا ہوا اوربخارترقی پرہے، آج چل کر جَدَّہ کے کھلے میدان میں رات بسر کرنی ہوگی۔بخار میں کیا حالت ہوگی؟ سر کارِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سےعرض کی۔ بِحَمْدِاللہ تَعَالٰی بخار معاً(یعنی فوراً) جاتا رہا اورتیرھویں (ذی الحجۃ )تک عَود نہ کیا(یعنی دوبارہ نہ آیا)۔ جب بِفَضْلِہٖ تَعَالٰی تمام مناسکِ حج سے فارغ ہولئے ،تیرہویں تاریخ بخار نے عَودکیا ۔ میں نے کہا:اب آیا کیجئے، ہمارا کام ربُّ العزت نے پورا کردیا۔‘‘ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبہ المدینہ ص188)
بیداری میں دیدارِ مصطَفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم
جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے تو زیارتِ نبیِّ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کی آرزو لیے روضہ اَطہر کے سامنے دیر تک صلوٰۃ وسلام پڑھتے رہے، مگر پہلی رات قسمت میں یہ سعادت نہ تھی۔ اس موقع پر وہ معروف نعتیہ غزل لکھی جس کے مَطْلَع میں دامنِ رحمت سے وابستگی کی اُمّیددکھائی ہے ۔
وہ سُوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
لیکن مَقْطَع میں مذکورہ واقِعہ کی یاس انگیز کیفیت کے پیشِ نظر اپنی بے مائیگی کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے شَیدا ہزار پھرتے ہیں
(اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مِصرعِ ثانی میں بطورِ عاجزی اپنے لیے “کُتّے” کا لفظ اِستعمال فرمایا ہے مگر سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ نے اَدَباً یہاں “شیدا” لکھ دیا ہے)
یہ غزل عرض کرکے دیدار کے اِنتظار میں مُؤَدَّب بیٹھے ہوئے تھے کہ قسمت جاگ اٹھی اور چشمانِ سر سے بیداری میں زیارتِ حُضُورِ اَقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم سے مشرَّف ہوئے۔ (حیات اعلٰی حضرت ،ج ۱، ص ۹۲، مکتبۃ المدینہ، بابُ المدینہ کراچی)
سبحٰنَ اﷲ عزوجل ! قربان جائیے ان آنکھوں پر کہ جنہوں نے عالمِ بیداری میں محبوبِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کا دیدار کیا۔کیوں نہ ہو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اندر عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ “فَنا فی الرَّسول” کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نعتیہ کلام اِس اَمر کا شاہد ہے۔
شارحِ بخاری امام قسطلانی کی تحسین فرمائی
شارحِ بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابنِ عربی کا ایک قول نقل کرتے وقت اپنی طرف سےصلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا اضافہ کردیا،جس پر امام احمد رضا خان نےبےساختہ شارح بخاری علیہ الرحمہ کو دُعا دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت کرے اور آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے صدقہ میں ہماری بھی حفاظت فرمائے کیونکہ آپ نے بارگاہِ مصطفی صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا ادب ملحوظ رکھاہے۔‘‘ (تعلیقاتِ رضا از مولانا سید غلام مصطفی شاہ عقیل بخاری مطبوعہ لاہورمکتبہ بہارِ شریعت ص18)
تعظیمِ ساداتِ کرام
اعلیٰ حضرت نےسید صاحب کے ہاتھ چوم لئے
جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ:
فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع ِعید الفطر بعد ِنماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا، مگر جس وقت سید قناعت علی دست بوس ہوئے سید ی اعلیٰ حضرت نے اُن کے ہاتھ چوم لئے ،یہ خائف ہوئے اور دیگر مقربان ِ خاص سے تذکرہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کا یہی معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران ِمصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں ۔ آپ اس کی دست بوسی فرمایا کرتے ہیں۔ غالباً آپ موجود سادات کرام میں سب سے پہلے دست بوس ہوئے ہوں گے ۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص 286)
سادات کودوگناحصّہ عطا فرماتے
جناب سید ایوب علی صاحب اعلیٰ حضر ت کی محبتِ سادات کا ایک اورواقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
اعلیٰ حضر ت کے یہاں مجلس ِ میلاد مبارک میں سادات کرام کو بہ نسبت اور لوگوں کے دوگنا حصہ بروقت تقسیم شیرینی ملا کرتا تھا اور اسی کا اتباع اہلِ خاندا ن بھی کرتے ہیں ۔
ایک سال بموقع بارہویں شریف ماہ ربیع الاول ہجو م میں سید محمود جان صاحب کو خلاف ِمعمول اکہر ا(ایک) حصہ یعنی دو تشتریاں شیر ینی کی بلا قصد پہنچ گئیں ۔موصوف خاموشی کے ساتھ حصہ لے کر سیدھے حضورِ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کے یہاں سے آج مجھے عام حصہ ملا ۔ فرمایا: سید صاحب تشریف رکھئے !اور تقسیم کرنے والے کی فوراً طلبی ہوئی اور سخت اظہار ناراضی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :ابھی ایک سینی(بڑی پلیٹ) میں جس قدر حصے آسکیں بھر کر لاؤ چنانچہ فوراً تعمیل ہوئی ۔ سید صاحب نے عرض بھی کیا کہ حضور میرا یہ مقصد نہ تھا ،ہاں دل کو ضرور تکلیف ہوئی جسے برداشت نہ کر سکا۔ فرمایا سید صاحب!یہ شیرینی تو آپ کو قبول کرنا ہوگی ورنہ مجھے سخت تکلیف رہے گی۔ اور شیر ینی تقسیم کرنے والے سے کہا کہ ایک آدمی کو سید صاحب کے ساتھ کر دو جو اس خوان کو ان کے مکان پر پہنچا آئے انہوں نے فوراً تعمیل کی۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص 288)
سید صاحب کے گھر جا کر بچے کو دم کیا
قاری احمد صاحب پیلی بھیتی بیان کرتے ہیں کہ:
اعلیٰ حضرت’’مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت‘‘میں قیام فرما ہیں،سید شوکت علی صاحب خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ حضرت! میرا لڑکا سخت بیمار ہے ،تمام حکیموں نے جواب دے دیا ہے ، یہی ایک بچہ ہے صبح سے نزع کی حالت طاری ہے ،سخت تکلیف ہے ،میں بڑی اُمید کے ساتھ آپ کی خدمت میں آیا ہوں ۔
اعلیٰ حضرت سید صاحب کی پریشانی سے بہت متاثر ہوئے اور خود اُن کے ہمراہ مریض کو دیکھنے کے لیے گئے ، مریض کو ملاحظہ فرمایا پھر سر سے پیر تک ہاتھ پھیر پھیر کر کچھ دُعائیں پڑھتے رہے ، سید صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت کے ہاتھ رکھتے ہی مریض کو صحت ہونا شروع ہو گئی اور صبح تک وہ مرتا ہوا بچہ اعلیٰ حضرت کی دعا کی برکت سے بالکل تندرست ہو گیا۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص978)
دربارِ رسالت میں انتظار
۲۵ صفَر المُظَفَّرکو بیت المقدَّس میں ایک شامی بُزُرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خواب میں اپنے آپ کو دربارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ وسلّم میں پایا ۔تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے عِظام رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی دربار میں حاضِر تھے ،لیکن مجلس میں سُکوت طاری تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی آنے والے کا اِنتظار ہے ۔شامی بُزُرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم میں عرض کی ، حُضور! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم ) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کس کا انتظار ہے ؟ سیِّدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم نے ارشاد فرمایا،ہمیں احمد رضا کااِنتظار ہے۔شا می بزرگ نے عرض کی، حُضُور ! احمد رضا کون ہیں ؟ ارشاد ہوا،ہندوستان میں بریلی کے باشِندے ہیں۔بیداری کے بعد وہ شامی بُزُرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مولانا احمد رضارحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تلاش میں ہندوستان کی طرف چل پڑے اور جب وہ بریلی شریف آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ اس عاشقِ رسول کا اسی روز (یعنی ۲۵ صفرالمُظفَّر۱۳۴۰ھ) کو وصال ہوچکا ہے جس روز انہوں نے خواب میں سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کو یہ کہتے سنا تھا کہ”ہمیں احمد رضا کا انتظار ہے۔”(سوانح امام احمد رضا ،ص ۳۹۱، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)
یا الہٰی جب رضاؔ خوابِ گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدارِ عشقِ مصطفٰے کا ساتھ ہو