روحانی زندگی
- شجرہء مبارکہ
- مرشدِ گرامی
- بیعت و خلافت
- مرشد کی شفقتیں
- محبتِ مرشد
- غوثِ پاک سے محبت
- بارگاہ غوثیت میں مقام
- بارگاہ اولیاء میں مقامِ اعلٰی حضرت
- بیعت کرنا کیسے شروع فرمایا
- خلفائے اعلیٰ حضرت
- خدّامِ اعلیٰ حضرت
- تلامذہء اعلیٰ حضرت
شجرہء مبارکہ
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شرائطِ اربعہ کے جامع پیر کامل وولیِّ کامل تھے آپ کا سلسلہ حضور صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم تک متصل تھا اعلیٰ حضرت کے کمالات ِ ولایت کے بیانات سے پہلے مناسب یہ ہے کہ ہم ان کی اتصال ِسند کو جان لیں۔
اگرچہ کئی (تیرہ)سلاسل بلخصوص’’ سلاسل ِ اربعہ‘‘(قادریہ ۔چشتیہ ۔ نقشبندیہ ۔سہروردیہ) میں خلافت و اجازت حاصل تھی لیکن اختصار کے پیشِ نظر یہاں صرف سلسلہءعالیہ قادریہ کے مشائخ ِکرام کے اسمائے گرامی پیش کئے جاتے ہیں :
سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے مشائخِ عظام:
- حضر ت سید المرسلین جنابِ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم
- حضرت امیر المومینن علی ِ مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم
- حضرت امام ِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ معروف کرخی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ جیند بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ عبدا لواحد تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ ا بو الفرج طرطوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ ابوالحسن علی ہکاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ ابو سعید مخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضور سیدنا غوثِ اعظم شیخ عبدا لقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید عبدا لرزاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید ابوصالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید محی الدین ابونصر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید احمد الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ بہاء الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید ابراہیم ایرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید محمدنظام الدین بھکاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت شیخ محمد ضیاء الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید شاہ جمال اولیا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید شاہ محمد کالپوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید شاہ احمد کالپوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سید شاہ فضل اللہ کالپوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سیدشاہ برکت اللہ مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سیدشاہ آلِ محمد مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضر ت سید شاہ حمزہ مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سیدنا شاہ آلِ احمد اچھے میاں مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- حضرت سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
- اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص728)
مرشدِ گرامی
اعلیٰ حضرت مادر زاد ولی تھے ۔آ پ نہ صرف بہت بڑے عالم ،فاضل ،فقیہہ اور محدث، بلکہ اپنے وقت کے کامل صوفی بزرگ بھی تھے آپ کی شانِ ولایت کے بیان سے پہلے اُس سرچشمہء فیض کا ذِکرِ خیر کیا جاتاہے جسکی تابانیوں سے فیض لے کر یہ ماہ ِ کامل پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو ا۔جی ہاں ! یہ ذِکر ِ خیر ہے سید ی اعلیٰ حضرت امام ِ اہلسنت کے پیر و مرشد وشیخ ِ طریقت، حضرتِ سید نا مخدوم سید شاہ آلِ رسول مارِہروی قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ۔
اسمِ گرامی :
’’خاتم الاکابر‘‘ حضرتِ سید نا مخدوم سید شاہ آلِ رسول مارِہروی قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ولادت ِ باسعادت:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادتِ باسعادت ماہِ رجب المرجب 1209ھ ’’مارہرہ شریف‘‘ ضلع ’’ایٹہ‘‘ یو پی ہند وستان میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت :
سید شاہ آلِ رسول مارِہروی کی تعلیم و تربیت اپنے والدِ ماجدحضرت سید نا شاہ آلِ برکات’’ستھرے میاں‘‘کی آغوش ِ شفقت میں ہوئی اور انہیں کی نگرانی میں آپ کی نشوو نما ہوئی آ پ نے ابتدائی تعلیم حضرت عین الحق شاہ عبد المجید بدایونی صاحب اورحضرت مولانا شاہ سلامت اللہ کشفی بدایونی سے خانقاہ ِ برکاتیہ میں حاصل کی بعدازاں ’’فرنگی محلّ ‘‘کے علماء مولانا انوار احمد صاحب،مولاناعبدا لواسع صاحب اور مولانا شاہ نور الحق رزاقی صاحب سے کتب ِمعقولات ،علم ِ کلام ،فقہ و اصولِ فقہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی ۔
حضرت مولانا شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی کے درسِ حدیث میں بھی شریک ہوئے ۔ صحاح کا دورہ کرنے کے بعد سلاسلِ حدیث و طریقت کی سندیں مرحمت ہوئیں ۔
بیعت و خلافت :
حضرت کو خلافت و اجازت حضور سیدآلِ احمد’’ اچھے میاں‘‘(اپنے تایا جان )سے تھی ، والد ِماجد نے بھی اجازت مرحمت فرمائی تھی مگر مرید حضرت اچھے میاں کے سلسلے ہی میں فرماتے تھے۔
فضائل :
حضرت شاہ آلِ رسول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرھویں صدی ہجری کے اکابر اولیا ء اللہ میں سے تھے ۔آپ کی وہ عظیم شخصیت تھی جس کی مساعی و کوشش سے اسلام و مذہب ِاہلسنت وجماعت کو استحکام حاصل ہوا۔ بڑے نڈر، بے باک،شفیق اور مہربان تھے ۔ آپ کی شان بڑی ارفع و اعلیٰ ہے ،اعلیٰ حضرت نے آپ کے فضائل فارسی اشعار میں قلمبندفرمائے ہیں جس کا مطلع اِس طرح ہے :
خوشا!دلے کہ دہند ش ولائے آلِ رسول
خوشا !سرے کہ کنند ش فدائے آلِ رسول
عادات وصفات :
آپ کے عادات و صفات میں بھی شریعت کی پوری جلوہ گری تھی اور شریعت ِمطہرہ کی غایت درجہ پابندی فرماتے ،نماز باجماعت مسجد میں ادا فرماتے اور تہجد کی نماز کبھی قضاء نہ ہونے دیتے ۔نہایت کریم النفس ،عیب پوش اور حاجت براری میں یگانہء عصر تھے۔
محافلِ سماع قطعاً مسدود بلکہ صرف مجالسِ و عظ و نعت و منقبت و ختم قرآن ودلائل الخیرات شریف ،حُضَّارِعرس(حاضرین ِعرس) کی مہمانداری باقی رکھی تھی، فضولیات کی حضور کے دربار میں جگہ نہ تھی ،ظاہر شریعت سے ایک زرہ تجاوزبھی گوارہ نہ فرماتے ۔
جودو سخا:
آپ کے جودوسخا کا عالم یہ تھا کہ لوگ مصنوعی ضروریات بتا کر جب چاہتے روپیہ مانگ کر آپ سے لے جاتے اور چور بھی بعض اوقات مسافروں کی صورت میں آتے اور آ پ کی بارگاہ سے بامراد لوٹتے،آپ کی اہلیہ محترمہ عرض کرتیں کہ:”آپ خود ولی ہیں تو سب کو ولی ہی سمجھتے ہیں کچھ احتیا ط فرمائیں”مگر آپ خود گھر میں جا کر سائل کے لیے ضروری اشیاء لاتے اور دیدیتے جو حاجت مند آتا اس کی حاجت براری کرتے اور اکثر اپنے کپڑے تک اتار کر دیدیتے ۔عاجز ی کی انتہا یہ تھی کہ آ پ خود کبھی امام نہ بنتے بلکہ کسی اور سے ہی نماز پڑھواتے ۔
بیعت و خلافت
1294ھ جمادی الاخریٰ کا واقعہ ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ(کسی خیال سے) روتے روتے سو گئے، خواب میں دیکھا کہ آپ کے جدامجد حضرت مولانا شاہ رضاعلی خان صاحب تشریف لائے، ایک صندوقچی عطا فرمائی اور فرمایا عنقریب وہ شخص آنے والا ہے جو تمہارے درد ِدل کی دوا کرے گا۔
دوسرے ہی روز تاج الفحول محب ِ رسول حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب عثمانی بدایونی علیہ الرحمہ تشریف لائے اور اپنے ساتھ(بغرضِ بیعت) مارہر ہ مقدسہ لے گئے، مارہرہ مقدسہ کے اسٹیشن ہی پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا! شیخ ِکامل کی خوشبو آرہی ہے ۔ (بعد ازاں ایک سرائے میں ٹھہرے اور نہا دھو کر نئے کپڑے پہننے کے بعد خانقاہِ برکاتیہ میں بیعت کے لئے حاضر ہوئے)۔
ہم تو کئی روز سے انتظار کر رہے ہیں:
جب امامُ الاولیاء، سلطان العارفین ،تا جدارِ مارہر ہ حضرت مولانا سید شاہ آلِ رسول صاحب حسینی علیہ الرحمہ کی خدمت ِبابرکت میں پہنچے حضرت نے دیکھتے ہی فرمایا: آئیے! ہم تو کئی روز سے انتظار کر رہے ہیں ۔ پھر بیعت فرمایا اور اُسی وقت تما م سلاسل کی اجازت بھی عطا فرمادی اور خلافت بھی بخش دی نیز جو عطیات سلف سے چلے آرہے تھے وہ بھی سب عطا فرمادیئے اور ایک صندوقچی جو وظیفہ کی صندوقچی کے نام سے منسوب تھی عطا فرمائی۔آپ کو جن سلاسل ِطریقت کی اجازت و خلافت حاصل ہوئی ان کی تفصیل درجہ ذیل ہے :
(1)قادریہ برکاتیہ جدیدہ (2)قادریہ آبائیہ قدیمہ (3)قادریہ ہدایہ (4)قادریہ رزاقیہ (5)قادریہ منصوریہ (6)چشتیہ نظامیہ قدیمہ (7)چشتیہ محبوبیہ جدیدہ (8)سہروردیہ واحدیہ (9)سہروردیہ فضیلیہ (10)نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ (11)نقشبندیہ علائیہ علویہ (12)بدیعہ (13)علویہ منامیہ
حضور بائیس سال کے اس بچہ پر یہ کر م کیوں ہوا؟
اتنی عطائیں دیکھ کر تمام مریدین کو جو حاضر تھے تعجب ہوا، جن میں قطب ِدوراں تاج الاولیاء حضرت مولانا شاہ سید ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب علیہ الرحمہ نے( جو حضرت کے پوتے اور جانشین تھے) اپنے جدِا مجد سے عرض کیا حضور! بائیس سال کے اس بچہ پر یہ کر م کیوں ہوا؟ جبکہ حضور کے یہاں کی خلافت و اجازت اتنی عام نہیں، برسوں ،مہینوں آپ چلّے ریاضتیں کراتے ہیں ’’جو‘‘کی روٹی کھلواکر منزلیں طے کراتے ہیں ،پھر اگر اس قابل پاتے ہیں تب بھی ایک یا دو سلسلہ کی اجازت و خلافت عطا فرماتے ہیں (نہ کہ تمام سلاسل کی)۔
میں’’ احمد رضا ‘‘ کو پیش کر دوں گا:
حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ بھی بہت بڑے روشن ضمیر وعارف باللہ تھے، اِسی لئے یہ سب کچھ دریافت کیا تاکہ زمانے کو اس بچے کا مقام ولایت و شانِ مجددیت کا پتہ چل جائے ۔ سیدناشاہ آلِ رسول نے ارشاد فرمایا اے لوگو! احمدرضا کو کیا جانو یہ فرما کر رونے لگے اور ارشاد فرمایا۔میاں صاحب! میں متفکر تھا کہ اگر قیامت کے دن رب العزت جل مجدہ ٗ نے ارشاد فرمایا کہ آلِ رسول !تو دُنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں کیا جواب دوں گا ۔الحمد للہ آج وہ فکر دور ہو گئی، مجھ سے رب تعالیٰ جب یہ پوچھے گا کہ آلِ رسول! تو دُنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں مولانا احمد رضا کو پیش کر دوں گا،اور حضرات اپنے قلب زنگ آلود لیکر آتے ہیں، اُن کو تیار ہونا پڑتا ہے ،یہ اپنے قلب کو مجلّیٰ و مصفّیٰ لے کر بالکل تیار آئے، ان کو تو صرف نسبت کی ضرورت تھی ۔
مرشد کی شفقتیں
واللّٰہ! یہ چشم وچراغ ِخاندانِ برکات ہیں:
حضرت مولانا سید شاہ آلِ رسول صاحب حسینی علیہ الرحمہ نے ایک موقع پر حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ سے فرمایا میاں صاحب! میری اور میرے مشائخ کی تمام تصانیف مطبوعہ یا غیر مطبوعہ جب تک مولانا احمد رضاکو نہ دکھالی جائیں ،شائع نہ کی جائیں، جس کو یہ بتائیں کہ چھپے، وہی چھاپی جائے جس کو منع کریں وہ ہرگز نہ چھاپی جائے، جو عبارت یہ بڑھا دیں وہ میری اور میرے مشائخ کی جانب سے بڑھی ہوئی سمجھی جائے اور جس عبارت کو کاٹ دیں وہ کٹی ہوئی سمجھی جائے، بارگاہ ِ نبوی صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم سے یہ اختیارات ان کو عطا ہوئے ہیں، حضرت نوری میاں صاحب نے پھر اعلیٰ حضرت کے چہرہء مبارک پر نظر ڈالی تو برجستہ فرمانے لگے’’ واللہ یہ چشم وچراغ ِخاندانِ برکات ہیں‘‘ ۔ (تجلیات ِ امام احمد رضا از قاری محمد امانت رسول مطبوعہ کراچی ص38 )
1294ھ میں اعلیٰ حضرت کی عمر صرف بائیس (22) سا ل تھی ،لیکن اُن کا قلب ِمبارک ایسا روشن ہو چکا تھا کہ اُس بار گاہِ عالی میں ایسی قدر دانی و عزت افزائی ہوئی ، ایک تو فوراً خلافت عطا کی گئی ، دوسرا عظیم امتیازیہ ملاکہ روزِ قیامت’’ احکم الحاکمین ‘‘کی بارگاہ میں اپنی کمائی پیش کرنے کا موقع آیا تو فرمایا: احمد رضا کو پیش کروں گا ۔تیسرا یہ کہ توجہ تشبیہی (اپنے مشابہ کرنے کے لیے روحانی نظر) سے نوازے گئے ۔
(امام احمد رضا اور تصوف از مولانا محمد احمد مصباحی اعظمی مکتبہ کرمانوالہ لاہور ص19)
توجہِ تشبیہی :
جب مرُشدِ گرامی سے توجہ تشبیہی پا کر اعلیٰ حضرت اپنے مرشد گرامی کے ساتھ خانقاہ کے داروازہ ءسنگینی سے برآمدہوئے تو ایسا معلوم ہوتاتھا کہ حضرت سیدناشاہ آل ِ رسول مارہروی عنفوانِ شباب میں رونق افروز ہیں ، فقط داڑھی کی سفیدی اور سیا ہی سے سیدناشاہ آلِ رسول اور مولاناشاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں امتیاز کیا جا سکا ۔
جب ابتداء کا یہ حال ہے ۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا محمد احمد مصباحی صاحب اپنی کتاب ’’امام احمد رضا اور تصوف‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
جب ابتداء کا یہ حال و کمال ہے تو انتہا کا عروج و ارتقاء کیا ہوگا؟ اصل تو مرشدکی عنایت ہے جس کے بغیرہ راہِ سلوک طے نہیں ہوتی اور مرشِدنے اُسی دن بلکہ اُسی وقت توجہِ تشبیہی اور دوسری عنایات سے یہ عیاں کر دیا کہ ہم نے احمدر ضا کو سب معارف و حقائق سپر د کر دیئے، اُسے اپنا نائب و خلیفہ ہی نہیں بلکہ اپنا مظہرِ اتم اور پرتو ِکامل بنا دیا۔
اب وہ اِس کا اہل ہے کہ میرے بیان کردہ اور تحریر فرمودہ حقائق و معارف پر نظر ثانی کرسکے اور اسکی نظر کے بغیر کوئی کتاب شائع نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ شریعت یا اہلِ طریقت، اصحابِ مدارس ہو ں یا اربابِ خانقاہ ، سبھی امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں استفادہ و استصواب کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔
اگر ایک طرف و ہ صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور محد ث اعظم ہند مولانا سید محمد کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاذِ جلیل حافظِ صحیح بخاری مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بلند پایہ درس گاہی سوالات کا حل لکھ رہے ہیں تو دوسری طرف مولانا سید شاہ احمد اشرف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اہم خانقاہی سوالات کے جوابات بھی دے رہے ہیں ۔
’’فتاویٰ رضویہ‘‘ کی جلدوں اورمختلف رسائل کے صفحات پر اس سے زیادہ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں جو یہ ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی سے زائد ہیں کہ یہ عبقریء زمانہ ’’شریعت و طریقت‘‘ دونوں کا عالم اور’’ علماء و صوفیاء‘‘ دونوں کا امام ہے۔ (امام احمد رضا اور تصوف از مولانا محمد احمد مصباحی اعظمی مکتبہ کرمانوالہ لاہور ص19)
محبتِ مرشد
سلوک و تصوف او رارادت و طریقت میں ضروری ہے کہ اپنے آقائے نعمت سے بھر پور تعلقِ خاطر ہو، جبھی فیضانِ قلب و نظر سے بہر ور ہواجا سکتاہے ۔ اعلی حضرت اپنے مرشدِ گرامی سے سچی عقیدت رکھتے تھے ، اور کیوں نہ ہو کہ خودہی فرماتے ہیں :
- ارادت شرطِ اہم ہے بیعت میں ،بس مرشد کی ذرہ سی توجہ درکا رہے اور دوسری طرف اگر ارادت نہیں تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔
- جب تک مرید یہ اِعْتِقَاد(یعنی یقین)نہ رکھے کہ میرا شیخ تمام اَولیائے ِزمانہ سے میرے لیے بہترہے، نَفع نہ پائے گا۔
- اپنے تمام حَوَائج (یعنی حاجتوں)میں اپنے شیخ ہی کی طرف رجوع کرے۔
- اَصلِ کارحُسْنِ عقیدت ہے یہ نہیں تو کچھ نفع نہیں، اور صر ف حُسْنِ عقیدت ہے تو خیر اِتِّصَال (یعنی قُرب)تو ہے۔
- پَرنالہ کی مثل تم کو فیض پہنچے گا۔حُسْنِ عقیدت ہونا چاہیے (ملفوظاتِ اعلی حضرت مکتبہ المدینہ ص401-402-403)
ننگے پاؤں خانقاہ ِ برکاتیہ تک جاتے:
صاحبزادہ سید محمد امین میاں برکاتی نبیرہء خاتم الاکابر حضرت سید شاہ آلِ رسول برکاتی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
اعلیٰ حضرت اپنے مرشدان ِعظام کا اِس درجہ ادب ملحوظ رکھتے تھے کہ مارہرہ کے اسٹیشن سے خانقاہ ِبرکاتیہ تک برہنہ پا(ننگے پاؤں) پیدل تشریف لاتے تھے اور مارہرہ سے جب کبھی حجام خط یا پیالہ لے کر بریلی جاتا تو ’’حجام شریف‘‘ فرماتے اور اس کے لئے کھانے کا خوان اپنے سرِ اقدس پر رکھ کر لایا کرتے تھے۔ (احترام سادات ِ اور امام احمد رضا صاحب بریلوی از سید صابر حسین بخاری قادری مطبوعہ لاہو ر ص 35)
غوثِ پاک سے محبت
سید ی اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پیر و مُرشِد سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی کے ذریعے محبوبِ سبحانی ،قطبِ ربانی ،حضرت سیدنا شیخ عبدا لقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غلامی و نسبت کا شرف حاصل ہوا۔
آپ کو سرکارِ بغدادِ حضور ِ غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات ِ بابرکات سے بے پناہ عشق او روالہانہ لگاؤ تھا آ پ کی مجلس میں بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ حضو رِ غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا جاتا اور اس غلامی کا اظہار اعلیٰ حضرت اپنے اشعار میں کس والہانہ انداز سے کرتے ہیں:
تجھ سے در،در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دُور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا
چوں قلم دردستِ کاتب:
اعلیٰ حضرت کے کمالِ ادب ِ غوثِ اعظم کی ایک جھلک آپ کے چہیتے خلیفہ و شاگرد حضرت ِ محدث اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ( جو کہ غوثِ پاک کی اولاد میں سے تھے اور آپ سے کارِ افتا ء کی تربیت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے )یوں دکھاتے ہیں ۔
دوسرے دن کارِ افتاء پر لگانے سے پہلے خود گیارہ روپے کی شیرینی منگائی ،اپنے پلنگ پر مجھ کو بٹھا کر اور شیرینی رکھ کر فاتحہ ء غوثیہ پڑھ کر دستِ کرم سے شیرینی مجھ کو بھی عطا فرمائی اور حاضرین میں تقسیم کا حکم دیا۔(کیا دیکھتا ہوں ) کہ اچانک اعلیٰ حضرت پلنگ سے اُٹھ پڑے ۔ سب حاضرین بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے کہ شاید کسی حاجت سے اندر تشریف لے جائیں گے ۔لیکن حیرت بالائے حیرت یہ ہوئی کہ اعلیٰ حضرت زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے ۔سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ دیکھا تو یہ دیکھا کہ تقسیم کرنے والے کی غفلت سے شیرینی کا ایک ذرہ زمین پر گر گیا تھا اور اعلیٰ حضرت اس ذرہ کوزبان کی نوک سے اُٹھا رہے ہیں،اور پھر اپنی نشت گاہ پر بدستور تشریف فرما ہوئے ۔
اس واقعہ کو دیکھ کر سارے حاضرین سرکارِ غوثیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت و محبت میں ڈوب گئے اور فاتحہءغوثیہ کی شیرینی کے ایک ایک ذرے کے تبرک ہو جانے میں کسی دوسری دلیل کی حاجت نہ رہ گئی۔
اور اب میں نے سمجھا کہ بار بار مجھ سے جو فرمایا جاتا کہ میں کچھ نہیں یہ آپ کے جد امجد (حضور ِ غوث ِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کا صدقہ ہے و ہ مجھے خاموش کر دینے کے لیے ہی نہ تھا،اور نہ صرف مجھ کو شرم دلانا ہی تھا بلکہ درحقیقت اعلیٰ حضرت حضور ِ غوث ِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ’’چوں قلم دردستِ کاتب ‘‘(جیسے لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم) تھے، جس طرح کہ غوث ِ پا ک سرکا ر ِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ہاتھ میں ’’چوں قلم دردستِ کاتب ‘‘تھے ۔
(فیضانِ اعلٰی حضرت مطبوعہ شبیر برادرز لاہور ص322)
بارگاہ غوثیت میں مقامِ اعلٰی حضرت
میرے نائب مولانا احمد رضا خان ہیں:
’’علی پورسیداں‘‘ ضلع سیالکوٹ کے مشہور و معروف بزرگ امیرِ ملت حضرت مولانا الحاج پیر سید جماعت علی شاہ صاحب نقشبند ی مجددی محدث علی پوری علیہ الرحمہ کی ذات ِگرامی محتاج تعارف نہیں۔انہیں کا واقعہ ہے کہ اپنے نانا جا ن’’ قطبِ اقطابِ جہاں‘‘’’شہنشاہِ بغداد‘‘سرکارِغوث ِ اعظم رضی للہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کا شرف حاصل ہو اتو آ پ سے سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :
’’ہندوستان میں میرے نائب مولانا احمد رضا خان ہیں‘‘
چنانچہ امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب اعلیٰ حضر ت کی زیارت کے لیے بریلی تشریف لائے اور اعلیٰ حضرت سے یہ خواب بھی بیان کیا ۔ (تجلیاتِ امام احمد رضا از مولانا امانت رسول قادری مطبوعہ برکاتی پبلیشرز ص89)
بریلی میں مولانا احمد رضا خان:
شیر ربانی، حضرت پیر روشن ضمیر،میاںشیر محمد صاحب شرقپوری نقشبند ی کوایک مرتبہ شہنشاہِ بغداد، سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواب میں زیارت ہوئی ،میاں صاحب نے دریافت کیا حضور ! اس وقت دُنیامیں آپ کا نائب کون ہے ؟ سرکارِ غوث ِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:
بریلی میں مولانا احمد رضا خان
بیداری کے بعد صبح ہی کو سفر کی تیاری شروع کر دی، مریدوں نے پوچھا حضور کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا : بریلی شریف کا قصد ہے ،رات فقیرنے خواب میں سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیار ت کی اور پوچھا حضور اس وقت دُنیا میں آپ کا نائب کون ہے تو فرمایا کہ ’’احمد رضا ‘‘ لہٰذا ان کی زیارت کرنے جا رہا ہوں ۔
مریدوں نے عرض کیا حضور! ہم کو بھی اجازت ہو تو ہم بھی چلیں اور ان کی زیارت کریں آپ نے اجازت عطا فرمائی ۔شیر ربانی میاں شیر محمد صاحب اپنے مریدین کے ہمراہ شرقپور شریف سے بریلی شریف چل دیئے ۔
یہاں بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ آج شیخ ِ پنجاب تشریف لارہے ہیں، اوپر والے کمرے میں ان کے قیام کا انتظام کیا جائے اس کمرے کو صاف کر کے فرش لگایا جائے۔جس وقت شیر پنجاب اعلیٰ حضر ت کے کاشانہء اقدس پر پہنچے تو اعلیٰ حضر ت پھاٹک پر تشریف فرما تھے اور فرما رہے تھے کہ فقیر استقبال کے لیے حاضر ہے۔ مصافحہ ومعانقہ کے بعد پھاٹک والے مکان کے اوپر حضرت کا قیام ہوا، تین روز تک یہیں قیام فرمایا، پھر اجازت چاہی۔
(تجلیات امام احمد رضا از مولانا محمد امانت رسول قادری مطبوعہ برکاتی پبلیشر ز ص97)
قطبُ الارشاد:
خواص ہی نہیں عوام کو بھی بارہا اعلیٰ حضرت کے مقام کے بارے میں سرکارِ غوث پا ک کی طرف سے اشارے ملتے رہے، چنانچہ نامور صاحب ِقلم علامہ ارشدالقادری صاحب ایک واقعہ کی منظر نگاری یوں کرتے ہیں:
’’بریلی کے اسٹیشن پر ایک سرحدی پٹھان کہیں سے اتر ا، متصل ہی نوری مسجد میں اس نے صبح کی نماز ادا کی ، نماز سے فراغت کے بعد جاتے ہوئے نمازیوں کو روک کر اس نے پوچھا ’’یہاں مولانا احمد رضا خان نامی کوئی بزرگ رہتے ہیں ؟‘‘ ان کا پتہ ہو تو بتا دیجئے ۔ ایک شخص نے جواب دیا ۔۔۔ یہاں سے دو تین میل کے فاصلے پر ’’سوداگران ‘‘ نام کا ایک محلہ ہے وہیں اس کے علم و فضل کی راجدھانی ہے ۔ سرحدی پٹھا ن اٹھنا ہی چاہتا تھاکہ اس(نمازی) نے سوال کیا۔ کیا میں یہ معلوم کر سکتا ہوں کہ آپ کہاں سے تشریف لا رہے ہیں؟ جواب دیا سرحد کے قبائلی علاقے سے میرا تعلق ہے ۔ وہیں پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹا ساگاؤں ہے جہاں میرا آبائی مکان ہے ۔
آپ مولانا احمد رضا خان کی تلاش میں کیوں آئے ہیں ؟ اس سوال پر اس کے جذبات کے ہیجان کا عالم قابلِ دید تھا ، فوراً ہی آبدیدہ ہو گیا ۔ ـ’’یہ سوال نہ چھیڑئیے تو بہتر ہے‘‘ کہہ کر خاموش ہو گیا۔اس پر اسرار جواب سے پو چھنے والوں کا اشتیاق اور بڑھ گیا ۔ جب لوگ زیادہ مصر ہوگئے تو اس نے بتایا ۔ ۔۔ میں نے گزشتہ شب ِ جمعہ کو نیم بیداری کی حالت میں ایک خواب دیکھا ہے جس کی لذت میں کبھی نہیں بھولوں گا۔
اے خوشا نصیب! اولیا ئے مقربین اور ائمہء سادات کی نورانی محفل ہے جہاں بریلی کے ’’احمدرضا‘‘نامی ایک بزرگ کے سر پر امامت کی دستار لپیٹی گئی ہے ۔ اور انہیں ’’قطب الارشاد‘‘ کے منصب پر سرفراز کیا گیا ہے۔ میری نگاہوں میں اب تک وہ منظرمحفوظ ہے ۔ اس دن سے میں اس مردِ مومن کی زیارت کے لئے بے تاب ہو گیاہوں ۔
سرحدی پٹھان نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا ۔۔۔آپ حضرات قابلِ رشک ہیں کہ اپنے وقت کے’’ قطب لارشاد ‘‘کے چشمہ ء فیضان کے کنارے شب و روز کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اتناکہہ کر وہ بے تابیء شوق میں اٹھا اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے محلہ سوداگران کی طرف چل پڑا ۔
اس ایک واقعہ میں دوسرے بہت سے غیر معمولی پہلوؤں کے سوا ایک تابناک پہلو یہ بھی ہے کہ عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی برکتوں نے آپ کو مناز لِ ولایت میں ایک اہم منز ل، عظیم منصب ’’قطب الارشاد ‘‘ پر فائز کر دیا تھا ۔ اس شانِ ولایت کی توثیق متعدد واقعات سے ہوتی ہے ۔
فرشتوں کے کاندھوں پر’’ قطب الارشاد ‘‘کا جنازہ :
مخدوم ُ الملت ،محدث اعظم ہند حضرت سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں:
’’میں اپنے مکان پر (کچھوچھہ شریف میں)تھا، اوربریلی کے حالات سے بے خبر تھا ۔ میرے حضور شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں وضو فرمارہے تھے کہ یکبارگی رونے لگے ۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ۔ میں آگے بڑھا تو فرمایا کہ: بیٹا میں فرشتوں کے کاندھوںپر ’’ قطب الارشاد ‘‘ کا جناز ہ دیکھ کر رو پڑا ہوں ، چند گھنٹے کے بعد بریلی کا تار ملا(کہ اعلیٰ حضرت کا وصال ہو گیا ہے ) تو ہمارے گھر میں کہرام پڑ گیا۔ (حضرت بریلوی کی شخصیت از مولانا ڈاکٹر غلام مصطفی مطبوعہ جمعیت اشاعت اہلسنت کراچی ص 17-19)
مقام اعلٰی حضرت اولیاءکرام کی نظر میں
آپ کی اسی شانِ ولایت کا اثر تھا کہ ہندوستان بھر کے جیَّد بزرگانِ دین ،صوفیا ،علماء ، و مجاذیب آپ کی قدرو منزلت کا اظہار برملا کیا کرتے تھے۔آیئے! ان میں سے چند ایک کی جھلکیاںمُلاحظہ کرتے ہیں:
مولانا شاہ فضل رحمن گنج ِ مرادآبادی:
حضرت مولاناشاہ فضل رحمن صاحب گنج ِ مرادآبادی علیہ الرحمہ 1208ھ میں پیداہوئے۔ ’’تذکرہ علمائے ہند ‘‘ میں ہے:
مولاناشاہ فضل رحمن صاحب کے اوصافِ حمید ہ ایسے نہیں کہ زبان ِ بریدہ، قلم ِبے بُنیا د ،کاغذ پر اِن میں سے تھوڑے بھی لکھ سکے اور انسان ضعیف البیان کی کیا مجال ہے کہ ان کا عشرِ عشیر بھی بیان کر سکے ۔ آپ مرید و خلیفہ حضرت ِ شاہ محمد آفاق دہلوی اور شاہ غلام علی دہلوی علیہماالرحمہ کے ہیں۔مخلوق اُ ن کی طرف رجوع کرتی ہے، چھوٹے بڑے ، مالدار و مفلس ،مشہور و غیر مشہور ، دور و نزدیک سے آتے ہیں اور بیعت سے سر فراز ہوتے ہیں ۔ (تذکرہ ء علمائے ہند از مولوی رحمن علی مطبوعہ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی ص 328)
1292ھ کا واقعہ ہے 27رمضا ن المبارک کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گنج مراد آباد تشریف لے گئے ۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ حضرت مولانا شاہ وصی احمد صاحب محدثِ سورتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی تھے۔ (جوکہ حضرت مولانا فضلِ رحمن کے خلیفہ ء مجاز تھے)حضرت مولانا شاہ فضل رحمن صاحب علیہ الرحمہ نے آپ کی آمد سے مطلع ہو کر اپنے مریدوں سے فرمایا کہ’’ آج ایک شیر حق آرہا ہے ‘‘ پھرقصبہ سے باہر نکل کر آپ کا استقبال کیا۔ خانقاہ ِرحمانیہ میں شاہ صاحب کے مخصوص حجرہ میں اعلیٰ حضرت قیام پذیر ہوئے ۔ عصر کے بعدکی مجلس میں شاہ صاحب نے حاضرین سے یہ فرمایاکہ:
’’مجھے آپ میں نور ہی نور نظرآتا ہے ‘‘
نیز فرمایا:
’’میرا جی چاہتا کہ میں اپنی ٹوپی آپ کو اوڑھا دو ں اور آپ کی ٹوپی خود اوڑھ لوں‘‘۔ یہ فرما کر اپنی ٹوپی اعلیٰ حضرت کو اوڑھائی اورحضرت کی ٹوپی خود اوڑھ لی۔
اعلیٰ حضرت نے واپسی کی اجازت چاہی اور فرمایا کہ والد ِ ماجد سے اتنی ہی اجاز ت لے کر آیا تھا۔ شاہ صاحب نے فرمایا اُن سے میرا سلام کہنااورکہنا کہ دو روزفضل ِرحمن نے روک لیا تھا اور یوں 29رمضا ن کو رخصت فرمایا ۔یہاں پر قابلِ ذکریہ بات ہے کہ اُس وقت اعلیٰ حضرت کی عمر صرف 20سال تھی ، حضرت شاہ صاحب کی عمر تقریباً 84سال تھی، لیکن ایک اللہ کے ولی نے اپنی نگاہِ ولایت سے پہچان لیا کہ اِ س نوجوان کا آفتابِ ولایت ایک وقت میں طلوع ہو کر چمکے گا اور اپنی نورانیت سے عالم کو منور فرمائے گا۔ (تجلیاتِ امام احمدر ضا از مولانا امانت رسول صاحب مطبوعہ کراچی پبلیشرز ص 32)
’’حیاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘میں اتنا زائد ہے:بعدِ ملاقات اعلیٰ حضرت نے مجلسِ میلا د شریف کے(جواز کے) متعلق شاہ صاحب سے سُوال کیا فرمایا:تم عالم ہو پہلے تم بتاؤ۔اعلیٰ حضرت نے فرمایا :میں تو مستحب جانتا ہوں ۔شاہ صاحب نے فرمایا: لوگ اسے بدعتِ حسنہ کہتے ہیں اور میں سنت جانتا ہوں،صحابہءکرام جو جہاد کو جاتے تھے تو کیا کہتے تھے یہی نہ کہ مکے میں ایک نبی پیدا ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اُن پر قرآن اُتارا،اُنہوں نے یہ ،یہ معجزے دکھائے، اللہ تعالیٰ نے اُن کو یہ، یہ فضائل عطا فرمائے ، بتائیے اور مجلسِ میلاد میں کیا ہوتا ہے ؟یہی تو بیان ہو تا ہے جو صحابہءکرام اُس مجمع میں بیان کیا کرتے تھے۔فرق اتنا ہے کہ تم اپنی مجلس میں لڑوا(لڈو) بانٹتے ہو اور صحابہ ء کرام اپناموڑ( سر) بانٹتے تھے۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ لاہور ص1005)
حاجی وارث علی شاہ( دیوا شریف):
حاجی سید وارث علی شاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے پائے کے بزرگ گزرے ہیں ،بڑی ساد ہ زندگی گزاری ۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے شہر مدینے شریف پہنچے توجوتی اُتار دی پھر ساری زندگی جوتی کے بغیر ہی گزاردی ۔
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت نے سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ فرمایا، آپ کی عمر 25سال تھی، آپ سید صاحب کی زیارت کے لیے ’’دیواشریف‘‘ پہنچے۔ اعلیٰ حضرت اور سید وارث علی شاہ کا اس وقت تک آپس میں کوئی تعارف نہیں تھا ،ملاقات کا یہ پہلا موقعہ تھا ،پیر صاحب رونق افروز تھے ،مریدین آپ کی خدمت میں حاضرتھے۔جب اعلیٰ حضرت پہنچے تو سید صاحب فوراً سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا:’’مولانا اعلیٰ حضرت آگئے ‘‘۔
حضرت سید وارث علی شاہ صاحب کے پاس بڑے بڑے علما ء آتے تھے آپ کسی کو مولانا نہیں کہتے تھے اور نہ ہی اعلیٰ حضرت کہتے تھے۔پہلی مرتبہ آپ نے جس کو مولانا اور اعلیٰ حضرت کہا تو وہ سید ی امام احمد رضا خا ن ہی ہیں۔ (چہر ہ والضحیٰ از مولانا الہٰی بخش قادری مطبوعہ انجمن غلامانِ قطبِ مدینہ لاہور ص 105)
حضرت ِ سیدنا پیر مہر علی شاہ( گولڑہ شریف ):
ماہِ شریعت ،مہرِ طریقت ،حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی تعارف کے محتا ج نہیں۔ آپ یکم رمضا ن المبار ک 1275ھ بروز سوموار گولڑہ شریف میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے عمر بھر شریعت و طریقت کی بے مثال خدمات انجا م دیں ۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرتِ خواجہ شمس الدین سیالوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستِ اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے ۔فتنہ ء قادیانیت کے خلاف آپ کی خدمات مثالی ہیں ۔ 29صفر 1356ھ بروز منگل آپ کا وصال ہوا ۔گولڑہ شریف میں ہی تدفین ہوئی۔ (تذکرہ اکابرِ اہلسنت از مولانا عبدالحکیم شرف قادری مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور ص536)
آپ اعلیٰ حضرت کے ہمعصر تھے ،آپ نے اعلیٰ حضرت سے جس طرح محبت کا اظہار کیا مفتی محمد غلام سرور قادری صاحب اپنی کتاب ’’الشاہ احمد رضا ‘‘ میں اُس کا بیان یو ں کرتے ہیں :
جامع مسجد ہارون آباد کے امام اور غلہ منڈی ہارون آبا د کی مسجد کے خطیب مولانا مولوی احمد الدین صاحب فاضل مدرسہ انوارالعلوم نے راقم الحروف کو بتایا کہ میں حضرت مولانا مولوی نوراحمد صاحب فریدی کو بار ہایہ فرماتے سُنا کہ: عارفِ باللہ امام اہلسنت حضرت مولانا سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’آپ اعلیٰ حضرت کی زیارت کے لیے بریلی شریف حاضر ہوئے تو اعلیٰ حضرت حدیث پڑھا رہے تھے فرماتے ہیں مجھے یوں محسوس ہوتا کہ اعلیٰ حضرت بریلوی حضو رِ پُر نور حضرت ِ محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو دیکھ دیکھ کر آپ کی زیارت شریفہ کے انوار کی روشنی میں حدیث پڑھا رہے ہیں‘‘۔ (الشاہ احمد رضا از غلام سرور قادری مطبوعہ مکتبہ فریدیہ ساہیوال ص103)
مولانا نواب الدین گولڑوی روایت فرماتے ہیں کہ :
استاذُ العلماء حضرت مولانا فیض احمد صاحب مؤلف ’’مہر منیر‘‘ 1963میں قبلہ غلام محی الدین عرف ’’بابو جی ‘‘رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حرمین شریفین حاضر ہوئے تو مدینہ منورہ میں قطب ِمدینہ حضرت مولانا شیخ ضیاء الدین احمد مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں بھی حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا کہ کیا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ثابت ہے ۔ تو سید ی قطب مدینہ نے ارشاد فرمایا کہ:
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی ملاقات کا ثبوت تو نہیں ملتا(یعنی مجھ تک یہ بات نہیں پہنچی) البتہ حضرت ِاعلیٰ گولڑوی کا ذکر ِخیر اور مرزا قادیانی کے جھوٹے دعویٰ کے خلاف آپ کے مجاہدانہ کارناموں کا تذکرہ اعلیٰ حضرت کی مجالس میں بارہا سنا جاتا رہا ۔
(ملخصاً’’ لمعات قطب مدینہ‘‘ از خلیل احمد رانا مطبوعہ دار الفیض گنج بخش لاہور ص27)
بیعت کرنا کیسے شروع فرمایا
جنابِ سیدایوب علی صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ :
پہلے جوبھی مرید ہونے کے لیے بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں عرض کرتا،تو آپ اُسے سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب مارہروی یاحضرت ِمولانا شاہ عبدا لقادر صاحب بدایونی علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے۔
کچھ دنوں کے بعد عالم ِرؤیا(خواب) میں اپنے شیخِ کامل خاتم الاکابر حضرتِ سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ارشاد فرمایا:
’’آپ سلسلے کا دائرہ کیوں تنگ کرتے ہیں مرید کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘
اس حکم کے بعد آپ نے سلسلہء بیعت شروع فرمادیا ۔
عام روش سے ہٹ کر :
مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں :
اعلیٰ حضرت نے پیری مریدی کے اُن ذرائع کی طرف جو اس زمانہ میں مروج ہیں کبھی اصلاً توجہ نہ فرمائی، نہ کبھی اُن طریقوں سے کام لیا ،نہ کبھی اس کا پروپیگنڈاکیا،نہ ہر شہر میں بھاری ایجنٹ ہی مقرر کئے، مگر پھر بھی جن کی قسمت میں قسامِ ازل نے داخل سلسلہء عالیہ قادریہ رضویہ ہونا تحریر فرمادیا تھا، اطراف و اکنافِ عالم سے آ آ کر داخل سلسلہ ء عالیہ ہوتے رہے ۔
دُنیا بھرمیں سلسلہ کی وسعت:
یہ سلسلہ صرف اپنے صوبہ(U.P) ،مغربی و شمالی ’’آگرہ‘‘اور’’اودھ ‘‘ہی تک محدودنہ رہا بلکہ ہندوستان کے اکیس صوبوں، اسلامی ریاستوں اور ریاست ہائے راجگانِ راجپوتا نہ وغیرہ سے تجاوز کر کے بیرونِ ہند، کابل ، ایران ، ترکی سے بھی بڑھ کر عرب اور شام حتیٰ کہ حرمین شریفین تک وسیع ہو گیاتھا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ازمولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص708)
ایک لاکھ مریدین :
’’حیاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘ہی میں ہے کہ :
آ پ کے مریدوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر کے قریب ایک لاکھ کے پہنچ گئی تھی ۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت ازمولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص696)
(اور اب موجودہ دور میں یہی سلسلہ ء قادریہ رضویہ شیخ ِ طریقت بانی ء دعوتِ اسلامی امیرِ اہلسنت ابو بلال حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار ؔقادری رضوی ضیائی کے ذریعے دُنیا بھر کے بیشتر ممالک میں پھیل چکا ہے اور آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ سبحان اللہ )
خلفائے اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضر ت رضی اللہ تعالی عنہ کے خلفاء کی صحیح تعدا د کا تعین تو نہیں کیا جا سکتا لیکن قرین ِ قیاس یہ تعد ا دسو سے اوپر تجاوز کر تی ہے۔ اعلیٰ حضرت کے خلفاء نہ صرف برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ عرب و افریقہ کے بلاد میں بھی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے خلفاء کی فہرست ذیل میں پیش کی جاتی ہے:
خلفاء و پاک و ہند:
- حضرت ِ حجۃُ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان
- مفتیء اعظم ہند مولانا محمد مصطفی رضا خان
- صدر الشریعہ مولانا محمدامجد علی اعظمی
- صدرالافاضل مولانا محمد نعیم الدین مرادآبادی
- ملک العلماء مولانا طفرالدین بہاری
- سیدا حمد اشرف کچھوچھوی
- سید محمد محدث کچھوچھوی
- مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی
- قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی
- مولانا شاہ عبدالسلام جبل پوری
- قاری بشیر الدین صاحب جبلپوری
- مولانا عبدالباقی برھان الحق جبلپوری
- مولانا سید سلیمان اشرف بہاری
- مولانا سید محمد دیدار علی شاہ الوری
- ابوالبرکات سید احمد قادری
- مداح الحبیب مولانا جمیل الرحمن قادری
- فقیہ اعظم مولانا محمد شریف محدث کوٹلوی
- مولانا محمد امام الدین کوٹلوی
- مولانا شاہ ہدایت رسول قادری
- مفتی محمد غلام جان ہزاروی
- سید محمد عبدالسلام باندوی
- مولانا عبد الاحد صاحب پیلی بھیتی
- سلطان الوعظین
- مولانا عبدالحق صاحب پیلی بھیتی
- مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی
- مولانا حبیب الرحمن خان صاحب پیلی بھیتی
- مولانا عبدالحئی صاحب پیلی بھیتی
- مولانا شاہ محمد حبیب اللہ قادری میرٹھی
- مولانا محمد شفیع صاحب بیسلپوری
- مولانا محمد عمرالدین ہزاروی
- مولانا احمد بخش صادق صاحب
- مولانا احمد حسین امروہوی
- مولانا رحیم بخش آروی قادری
- مولانا رحم الہٰی منگلوری
- مولانا عبدالعزیز خاں بجنوری
- مولانا عزیز الحسن پھپھوندوی
- مولانا محمد حسنین رضا خان
- مولانا احمد مختار صدیقی میرٹھی
- قاضی عبدالوحید عظیم آبادی
- قاضی شمس الدین جونپوری
- مولانا سید غلام جان جود ہپوری
- مولانا محمد اسمعیل فخری محمود آبادی
- حضرت مولانا سید محمد حسین میرٹھی
- منشی حاجی محمد لعل خان مدراسی
- مولانا مشتاق احمد کانپوری
- میر مومن علی جنیدی
- مولانا سید نور الحسن نگینوی
- مولانا نثار احمد کانپوری
- مولانا حافظ یقین الدین بریلوی
- حاجی کفایت اللہ صاحب
خلفائے عرب و افریقہ:
- سید اسمعیل خلیل مکی
- الشیخ احمد الخضراوی المکی
- الشیخ اسعد بن احمد الدھان مکی
- سید ابو بکر بن سالم البار العلوی
- مولانا شیخ بکر رفیع
- حضرت شیخ حسن العجیمی
- حضرت سید حسین جمال بن عبدالرحیم
- سید حسین بن سید عبدالقادرمدنی
- مولانا سید عبدالرشید مظفر پوری
- سید فتح علی شاہ صاحب
- حضرت شیخ عبداللہ بن ابو الخیر میرداد
- علامہ سید عبداللہ دحلان مکی
- حضرت شیخ عبداللہ فرید بن عبد القادرکردی
- شیخ علی بن حسین مکی
- سید علوی بن حسن الکاف الحضری
- حضرت شیخ عمر بن حمدان المحرسی
- حضرت شیخ مامون البری المدنی
- مولانا سید محمد ابراھیم مدنی
- ابوالحسن بن عبدالرحمن المرزوقی
- سید محمد بن عثمان دحلان
- حضرت شیخ محمد جمال بن محمد الامیر
- محمد سعید بن محمد بالصبیل مفتیء شافعیہ
- السید محمد سعید بن السید محمد المغربی
- الشیخ محمد صالح کمال مفتیء حنفیہ
- محمد عبدالحئی بن سید عبدالکبیر الکتانی
- السید محمد عمر بن ابو بکر رشیدی
- الشیخ مولانا محمد یوسف
- سید مصطفی خلیل مکی آفندی
خدّامِ اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلفاء کے ذکرِ خیر کے بعد مناسب ہے کہ اُن کے خوش نصیب خدام کا ذکر ِ خیر بھی کر دیا جائے جنھوں نے شب و روز آپ کی خدمات سر انجام دیں۔مولانا حسنین رضا خان صاحب ’’سیرتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
خاص خدام کی اگر فہر ست کھولی جائے تو اِس میں تین نام خاص طور پر سامنے آتے ہیں الحاج کفایت اللہ صاحب ،حاجی نذیر احمد صاحب اورجناب ذکا اللہ خان صاحب ۔۔۔
حاجی کفایت اللہ صاحب:
حاجی کفایت اللہ صاحب رنگ سازی میں قلم کا کام خوب کرتے ،بورڈوغیرہ اچھے تیار کرتے تھے ،جوانی میں بیعت ہوئے ،اُس وقت تک اُنکی شادی نہ ہوئی تھی ،بیعت کے بعد انہوں نے شادی ہی نہ کی اور اپنے مرشد کی خدمت اختیار کر لی۔
بیعت ہونے سے لے کر اعلیٰ حضرت کی وفات تک سایہ کی طرح سفر و حضر میں ہر وقت ساتھ رہے حتیٰ کہ یہ اور حاجی نذیر احمد صاحب دوسرے سفرِ حج میں بھی ساتھ ہی تھے۔حاجی کفایت اللہ صاحب کی خدمات تاحیات مسلسل جاری رہیں ، اس تاحیات سے مراد ا علیٰ حضرت کی حیاتِ ظاہر ی نہیں بلکہ حاجی کفایت اللہ صاحب کی زندگی مراد ہے ، اس لئے کہ وہ اعلیٰ حضرت کی وفات کے بعد بھی اُنہی کے قدموں میں پڑے رہے اور وہیں دم دیا اور اب بھی وہ اعلیٰ حضرت کے بائیں جانب دفن ہیں۔
وہ در حقیقت اولیائے سابقین اور علمائے سلف کے خدام کا صحیح نمونہ تھے، اِس دور میں تو وہ اپنے اس طرزِ معاشرت میں اپنا نمونہ آپ ہی تھے۔ کہیں اورایسے پر خلوص خدام نہ دیکھے گئے، وہ بڑے متقی و پر ہیز گار تھے ۔
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعدبھی ہر وقت مزار شریف پر حاضر رہتے تھے۔ اعلیٰ حضرت نے بعض نقوش کی انھیں اجازت دیدی تھی وہ لوگوں کو لکھ لکھ کر دیتے رہتے، یوں اُن کی ذات سے بھی خدمت ِخلق کا سلسلہ تاحیات جاری رہا ۔
اس قدر غیور تھے کہ ُانھیں کسی سے کچھ لیتے سنا بھی نہیں،اعلیٰ حضرت کے صاحبزادگان اور اِنکے بعض فدائی ممکن ہے کہ حاجی صاحب کی خفیہ امداد کرتے رہے ہوں۔
میری زندگی کی تمام نیکیاں لے لیں:
اعلیٰ حضرت کا وصال 1340ھ 1921ء میں ہوا اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سردار احمد صاحب پڑھنے کے لئے 1344ھ 1924ء کے لگ بھگ بریلی حاضر ہوئے ۔ اس طرح آپ امام احمد رضا کی زیارت و ملاقات نہ کر سکے ،جس کازندگی بھر احساس رہا ، اس کا اظہار یوں ہوتا کہ بارہا آپ حضرت حاجی کفایت اللہ صاحب سے فرمایا کرتے کہ ’’میری زندگی کی تمام نیکیاں لے لیں اور اعلیٰ حضرت کی ایک زیارت ایسی نیکی کا ثواب مجھے دے دیں‘‘۔ (محدث اعظم پاکستان جلد 1از مولانا جلال الدین قادری مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور ص149)
حاجی نذیر احمد صاحب:
حاجی نذیر احمد صاحب مرحوم چند سال حاجی کفایت اللہ صاحب کے دوش بدوش حاضر خدمت رہے، وہ قوم کے راعین تھے اور شاید زمیندار بھی تھے،انھیں زمیندار ی کے کاموں کی وجہ سے کچھ روز گھر بھی رہنا پڑتا تھا تو اس سنہری موقع کو ذکا ء اللہ خاں صاحب نے ہاتھ سے نہ جانے دیا اور ان کی غیر حاضری میں خالی جگہ اُنہوں نے پرُ کی۔
جنابِ ذکاء اللہ خان صاحب:
جب حاجی نذیر ا حمد صاحب معذور ہو گئے تو ذکاء اللہ خان صاحب اُن کی جگہ آگئے ۔اُن کی حاضری اور خدمت وقتی تھی،وہ معاش کی ضرورتوں سے جب فرصت پاتے تو آتے۔
حاجی خدا بخش صاحب:
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خدام میں خدابخش مرحوم بھی تھے،ہمارے خاندان اور بعض دیگر اہلِ محلہ میں پانی بھرتے تھے۔ اعلیٰ حضرت کے گھر کی ملازم عورتیں اور باہر کے ملازم مرد اگر کام کاج کے قابل نہ رہے تو خود گئے یا یہیں مرض الموت میں مبتلا ہوئے اوراگر گھر والے لے گئے تو ان کی وفات پرتنخواہ روزِ رحلت تک کی ادا کی گئی اور جو کچھ امداد ہو سکی وہ کی گئی،کسی خادم کا نکالا جانا مجھے یاد نہیں ہے۔
(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص 132,133)
جنابِ سید ایو ب علی رضو ی صاحب :
’’فدائے رضویت ‘‘ جناب ِمولاناسید ایو ب علی رضو ی صاحب کے ذکرِ خیر کے بغیرخدامِ اعلیٰ حضرت کا ذکرِ خیر مکمل نہیں ہو سکتا۔آپ سیرتِ اعلیٰ حضرت کے حوالے سے بے شمار واقعات کے راوی ہیں۔آئیے !کچھ ان کی شخصیت کے بارے میں بھی جانتے ہیں:
آپ کا سلسلہء نسب کچھ یوں ہے۔۔۔
سید ایو ب علی رضو ی صاحب بن سید شجاعت علی بن سید تراب علی بن سید ببر علی۔۔۔ بریلی شریف میں پیدا ہوئے ،مڈل سکول میں مڈل کرنے کے بعد فارسی کی تعلیم حاصل کی، کچھ عرصہ’’ اسلامیہ سکول‘‘ بریلی میں پڑھاتے رہے، پھر جب اعلیٰ حضرت سے بیعت کا شرف حاصل ہوا تو اپنے آپ کو بارگاہِ رضویت کے لیے وقف کر دیا ۔
لکھائی کا جو کام آپ کے سپر د کیا جاتا اسے حسنِ اہتمام سے انجام دیتے ،رمضان شریف میں سحری اورافطاری کے نقشے مرتب فرماتے،دیگر علوم کے علاوہ ریاضی اور توقیت میں اعلیٰ حضرت سے خوب خوب استفادہ کیا۔
سید صاحب کر بلائے معلیٰ ،بغداد شریف ، نجف اشرف اور بصرہ میں بزرگانِ دین کے مزارت پر حاضری سے بھی مشرف ہوئے ،تین دفعہ حج و زیارت کی سعادت سے بہر ہ ور ہوئے، اڑھائی سال تک مدینہ طیبہ میں قیام پذیر رہے ۔
اعلیٰ حضرت کے وصال کے دو سال بعد بریلی شریف میں ’’رضوی کتب خانہ‘‘ قائم کیا اور اعلیٰ حضرت کے متعدد رسائل شائع کئے۔
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد اُن کی سوانحِ حیات مرتب کرنے کی تحریک آپ ہی نے شروع کی تھی ۔’’حیات اعلیٰ حضرت‘‘مؤلفہ مولانا ظفرالدین بہاری صاحب کے اکثر و بیشتر واقعات آپ ہی کی روایات پر مبنی ہیں ۔ مولانا ظفرالدین بہاری صاحب لکھتے ہیں:
’’ہم رضویوں کو جنابِ حاجی مولوی سید ایوب علی صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اِس کی طرف سب سے پہلے انہوں نے توجہ فرمائی اور برادرانِ طریقت کو بھی توجہ دلائی۔ اُن کی تحریک سے بعض احباب نے کچھ حالات اُن کے پاس لکھ بھیجے اور زیادہ تر حصہ خود سید صاحب موصوف نے لکھا ۔جب اُن کو میرے’’ حیات اعلیٰ حضرت‘‘ لکھنے کی خبر ہوئی تو جو کچھ مواد اُن کے پاس تھا سب مجھے عنایت کر دیا ۔‘‘
مولاناسید ایوب علی صاحب اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیضِ صحبت سے حد درجہ متاثر تھے ۔تقویٰ و پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے، معاملات میں اسقدر محتاط تھے کہ جب تک ایک ایک پیسے کا حساب نہ چکا دیتے مطمئن نہ ہوتے۔
1370ھ 1950ء میں پاکستان آکر لاہور میں قیام پذیر ہو گئے، یہاں بھی ’’رضوی کتب خانہ‘‘ قائم کرکے متعدد رسائل شائع کئے۔ محدثِ اعظمِ پاکستان مولانا سردار احمد صاحب اور حضرت مولانا سید ابوالبرکات شاہ صاحب کے دل میں آپ کی بے حدقدر ومنزلت تھی ، آخری چند سال آپ نے’’ جامعہ رضویہ‘‘ فیصل آباد میں گزارے ۔
قدرت نے آپکو شعر و سخن کا پاکیز ہ ذوق عطا کیا تھا ، حمد و نعت اور منقبت ایسے محبوب موضوعا ت پر عام فہم اور دلنشیں انداز میں اظہارِ خیال کیا کرتے تھے ۔مجموعہء کلام ’’باغ ِفردوس‘‘کے نام سے دوحصوں میں طبع ہو چکا ہے۔ ہر سال عرسِ رضوی پر نئی منقبت لکھ کر پیش کیا کرتے تھے، ایک نعت کے دو بند ملاحظہ ہوں :
ہوئی ختم دن را ت کی آہ و زاری
بہت کی ہے سرکار اختر شماری
نہ ہیں سرد آہیں نہ ہے اشکبار ی
بس اب آپ ہی کے کرم کی ہے باری
لحد میں تھپک کر سلادیجئے گا
شہا ! میری تربت پہ للہ آئیں
نکیرین جس وقت تشریف لائیں
شبیہ مبارک کے جلوے دکھائیں
اور ایوب رضوی کو جب آزمائیں
تو کلمہ نبی کا پڑھا دیجئے گا
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک منقبت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تمہارے لطف و کر م سے آقا، ہوائیں طیبہ کی کھارہا ہوں
جو داغ ِفرقت تھے دل پہ کھائے، وہ رفتہ رفتہ مٹا رہا ہوں
کوئی بغلگیر ہو رہا ہے ،تو کوئی پیشانی چومتاہے
جو نام والا کو سن رہا ہے ،جسے سکونت بتا رہاہوں
سنے جو حالاتِ حاضری تھے ، یہ ان کی تصدیق ہورہی ہے
حرم کے ذی احترام علماء ،تمہارے مدَّاح پا رہاہوں
فقیرِ ایوب قادری کی ،قبول فرما لے منقبت کو
ترے نقیبوں میں بندہ پر ور، ہمیشہ مدح سرارہا ہوں
26رمضان المبارک 1390 ھ بمطابق26نومبر 1970بروز جمعۃ الوداع نماز ِفجر سے قبل آپ کا وصال ہوا اور’’میانی صاحب ‘‘ لاہو ر کے قبرستان میں دفن ہوئے ۔ (تذکرہء اکابرِ اہلسنت ص108)
تلامذہء اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے،مندرجہ بالاخلفاء وخدام کے علاوہ درجہ ذیل حضرات کا ذکر بھی مولانا حسنین رضا خان نے’’سیرتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں کیا ہے،تحریر فرماتے ہیں:
حسبِ ذیل حضرات بھی اعلیٰ حضرت کے حلقہء درس میں شامل تھے :
- مولانا شاہ ابو الخیر سید غلام محمد صاحب بہاری
- مولانا سید عبدا لرشید صاحب بہاری
- مولوی حکیم عزیر غوث صاحب
- مولوی واعظ الدین صاحب چاٹگام
- مولوی سلطان الدین سلہٹ
- مولوی نوراحمد صاحب بنگال
- نواب مرزا طوسی ۔۔۔وغیرہ
یہ حضرات آپ کے پا س خصوصیت سے توقیت ، لوگارثم ،تکسیر ، ریاضی اور کتبِ احادیث پڑھتے تھے۔
حسبِ مراتب فتاویٰ بھی اِنکے سپر د ہوتے تھے اِن دنوں اعلیٰ حضرت کو بہت کام کرنا پڑتا تھا تو اِن سب حضرات کی مشاورت سے ایک نیا نظم قائم کیا گیا ۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص 133)