- وِلاد ت باسعادت
- سلسلۂ نسب
- والدِ محترم
- القابات
- حلیہ مبارک
- تقویٰ و پرہیز گاری
- پہلی تقریر
- اساتذہ کرام
- پہلا فتویٰ
- شادی
- اولادِ امجاد
- وفات حسرت آیات
اعلٰی حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانہِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِی بِدعت، عَالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق ۱۴ جون ۱۸۵۶ کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (۱۲۷۲ھ) ہے (حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج۱، ص۵۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی) آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔
آپ کا نسبی سلسلہ افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغانوں کے جدِا مجد قیس عبد الرشید( جنہیں سرکار دو عالم ،نور ِ مجسم ، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ عالیہ میں حاضری دی کر دینِ اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی) کے پوتے ’’شرجنون‘‘الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے۔(گویا آپ ایک صحابی ء رسو ل صلی اللہ علیہ والہ ٖ وسلم کی اولاد سے ہیں) (شاہ احمد رضا خان بڑیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی ص 35)
پیدائش:
تعلیم و تربیت :
اخلاق و عادات:
عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم :
اعلیٰ حضرت:
دیگر القابات:
علمائے حجا ز کی طرف سے القابات:
- ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ چمکد ار گند می تھا۔
- چہر ہء مبار ک پر ہر چیز نہایت موزوں و مناسب تھی۔
- بلند پیشانی ،بینی مبارک نہایت ستواں تھی۔
- ہر دو آنکھیں بہت موزوں اور خوبصورت تھیں ۔
- نگاہ میں قدرے تیزی تھی جو پٹھان قوم کی خاص علامت ہے۔
- ہر دو ابر و کمان ابرو کے پورے مصداق تھے۔
- لاغری کے سبب سے چہر ہ میں گدازی نہ رہی تھی مگران میں ملاحت اس قد رعطا ہوئی تھی کہ دیکھنے والے کو اس لاغری کا احسا س بھی نہ ہوتا تھا۔
- کنپٹیا ں اپنی جگہ بہت مناسب تھیں ۔
- داڑھی بڑی خوبصورت گردار تھی۔
- سر مبارک پرپٹے(زلفیں) تھے جو کان کی لو تک تھے۔
- سرمبارک پر ہمیشہ عمامہ بند ھا رہتا تھا جس کے نیچے دو پلی ٹوپی ضر ور اوڑھتے تھے۔
- آپ کا سینہ باوجود اس لا غری کے خوب چوڑا محسوس ہوتا تھا۔
- گرد ن صراحی دار تھی اور بلند تھی جو سرداری کی علامت ہوتی ہے۔
- آپ کا قد میانہ تھا۔
- ہر موسم میں سوائے موسمی لباس کے آپ سپید(سفید) ہی کپڑ ے زیب ِ تن فرماتے ۔
- موسم سرما میں رضائی بھی اوڑھا کرتے تھے۔
- مگر سبز کا ہی اونی چادر بہت پسند فرماتے تھے اور وہ آپ کے تن ِمبارک پر سجتی بھی خوب تھی۔
- آپ بچپن ہی میں کچھ روز گداز رہے پھر تو سب نے آپ کو چھریرا اور لاغر ہی دیکھا ۔
- آپ کی آواز نہایت پر درد تھی اور کسی قدر بلند بھی تھی۔
- آپ جب اذان دیتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے۔
- آپ بخاری طرز پر قرآن ِپا ک پڑھتے تھے۔
- آپ کا طرز اداعام حفاظ سے جدا تھا۔
- آپ نے ہمیشہ ہندوستانی جوتا پہنا جسے سلیم شاہی جوتا کہتے ہیں ۔
- آپ کی رفتا ایسی نرم کہ برابر کے آدمی کو بھی چلتا محسوس نہ ہوتا تھا۔
محافظتِ نماز
محافظتِ روزہ:
محافظتِ نگاہ :
چھ سال کی عمر شریف میں ربیع الاول کے مبار ک مہینہ میں منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے آ پ نے پہلی تقریر فرمائی، جس میں کم وبیش دو گھنٹے علم و عرفا ن کے دریا بہائے اور سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ذکر ِولاد ت کے بیان کی خوشبو سے اپنی زبان کو معطر فرمایا، سامعین آپ کے علوم ومعارف سے لبریز بیان کو سن کر وجد میں آگئے اور تصویر ِحیرت بن گئے کہ ُان کے سامنے ایک کمسن بچے نے مذہبی دانشمندی کی وہ گراں مایہ باتیں بیان کیں جو بڑے بڑے صاحبانِ عقل و ہوش کے لیے باعثِ صد رشک ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رَبُّ العالمین اپنے جس بندے کو اپنی معرفت کی دولت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے اس کی حیاتِ پاک کی ایک ایک گھڑی اور ہر ہر ساعت میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات عام انسانوں کے فہم اور ادراک سے باہر ہوتے ہیں، لیکن جن کو خداوندِ قدوس نے بصارت و بصیر ت دونوں ہی کی روشنی عطافرمائی ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ خاصانِ خدا کے سینے علوم ومعرفت کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور ان کے لیے بچپن،جوانی،بڑھاپاکوئی دور کوئی زمانہ رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ (مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص41) .
- حضر تِ والدِ ماجد مولانا شاہ نقی علی خان (اور ان کے علاوہ صر ف درجہ ذیل پانچ نفوسِ قدسیہ ہیں جن سے آپ کو نسبتِ تلمذ ہے)
- اعلیٰ حضرت کے وہ استاذ جن سے ابتدائی کتابیں پڑھیں
- جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب(جن سے آپ نے میزانِ منشعب تک کی تعلیم حاصل کی)
- حضرت مولانا عبدا لعلی صاحب رامپوری (ان سے اعلیٰ حضرت نے شرح چغمینی کے چند اسباق پڑھے)
- آپ کے پیر ومرشد حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ سے تصوف و طریقت اور افکا رکی تعلیم حاصل کی )
- حضر ت سالارِ خاندان برکاتیہ سید شاہ ابوالحسین احمدنوری (ان سے علمِ جفر ،تکسیر اور علمِ تصوف حاصل کئے)
- شیخ احمد بن زین دحلان مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
- شیخ عبد الرحمن سراجِ مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
- شیخ حسین بن صالح مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
حُکَّام کی خوشامد سے اِجتِناب
ایک مرتبہ رِیاست نانپارہ (ضِلع بہرائچ یوپی) کے نواب کی مَدح میں شعراء نے قصائد لکھے ۔کچھ لوگوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی گزارِش کی کہ حضرت آپ بھی نواب صاحِب کی مَدح میں کوئی قصیدہ لکھ دیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے جواب میں ایک نعت شریف لکھی جس کا مَطْلَع ( غزل یا قصیدہ کے شروع کا شعر جس کے دونوں مصرو ں میں قافیے ہوں وہ مَطْلَع کہلاتا ہے) یہ ہے۔
وہ کمالِ حسنِ حضورہے کہ گمانِ نقص، جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
اور مَقْطَع (غزل یا قصیدہ کا آخری شعر جس میں شاعر کا تخلّص ہو وہ مَقْطَع کہلاتا ہے) میں “نانپارہ” کی بندِش کتنے لطیف اشارہ میں ادا کرتے ہیں
کروں مدح اہلِ دُوَل رضاؔپڑے اس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین “پارہ ناں” نہیں
فرماتے ہیں کہ میں اہلِ ثروت کی مَدح سرائی کیوں کروں۔ میں تو اپنے کریم اور سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کے در کا فقیر ہوں۔ مرا دین ”پارہ نان ” نہیں۔ ”نان” کا معنیٰ روٹی اور ”پارہ” یعنی ٹکڑا۔ مطلب یہ کہ میرا دین روٹی کا ٹکڑا نہیں ہے جس کے لیے مالداروں کی خوشامدیں کرتا پھروں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ میں دنیاکے تاجداروں کے ہاتھ بکنے والا نہیں ہوں۔
(تذکرہ امام احمد رضا ص۹ مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
مستقل فتویٰ نویسی :
اہلیہء محترمہ ارشادبیگم :
- حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
- مفتیٔ اعظم ِہند مولانا محمد مصطفی رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
- مصطفائی بیگم
- کنیزِ حسن
- کنیزِ حسین
- کنیزِ حسنین
- مرتضائی بیگم