علمی خدمات
- اعلٰی حضرت اور کنز الا یمان
- مستقل فتویٰ نویسی
- ایک سو پانچ علوم پر مہارت
- چھ گھنٹے سورہء والضُّحیٰ پر بیان
- علم الحدیث پر زبردست مہارت
- اعلٰی حضرت کی شاعری
- اعلٰی حضرت کی رِیاضی دانی
- علمِ تکسیر میں مہارت
- تاریخ گوئی میں مہارت
- علم ھئیت میں مہارت
- علمِ توقیت میں مہارت
- تصانیف
اعلٰی حضرت اور کنز الا یمان
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تفسیر ی مہارت کا ایک شاہکار آپ کا ترجمہ قرآن ’’کنزالایمان ‘‘ بھی ہے جس کے بارے میں محدثِ اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :
’’علم ِقرآن کا اندازہ صر ف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثال ِسابق نہ عربی میں ہے، نہ فارسی میں ہے ، نہ اردو زبان میں ہے ، اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اُس جگہ لایا نہیں جا سکتا جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں قرآن(کی روح)ہے (جامع الاحادیث جلد 8از مولانا حنیف خان رضوی مطبوعہ مکتبہ شبیر برادرز لاہور ص 101)
پھر یہ ترجمہ کس طرح معرض ِ وجو د میں آیا، ایسے نہیں جس طرح دیگر مترجمین عام طور سے گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر متعلقہ کتابوں کا انبار لگا کر اور ترجمہ تفسیر کی کتابیں دیکھ دیکھ کر معانی کا تعین کرتے ہیں بلکہ اعلیٰ حضرت کی مصروف ترین زندگی عام مترجمین کی طرح ان تمام تیاریوں اور کامل اہتمامات کی متحمل کہا ں تھی ۔
’’سوانح امام احمد رضا ‘‘ میں مولانا بد ر الدین قادری صاحب تحریر فرماتے ہیں :
’’صدر الشریعہ‘‘ حضرت علامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی نے قرآن مجید کے صحیح ترجمہ کی ضرورت پیش کرتے ہوئے امام احمد رضا سے ترجمہ کر دینے کی گزارش کی ۔ آپ نے وعدہ فرمالیا لیکن دوسرے مشاغل ِ د ینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی ،جب حضرت ’’صدر الشریعہ‘‘کی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا: چونکہ ترجمہ کے لیے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لئے آپ رات میں سوتے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایا کریں ۔چنانچہ حضرتِ ’’صدر الشریعہ‘‘ ایک دن کاغذ قلم اور دوات لے کر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہو گیا
آپ ربانی طور پر آیات کا ترجمہ بولتے اور صدر الشریعہ لکھتے رہتے:
ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلیٰ حضرت زبانی طور پر آیات ِکریمہ کا ترجمہ بولتے جاتے اور’’ صدر الشریعہ‘‘ اس کو لکھتے رہتے ،لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا کہ آپ پہلے کتب ِتفسیر و لغت کو ملاحظہ فرماتے ،بعدہٗ آیت کے معنی کو سوچتے پھر ترجمہ بیان کرتے، بلکہ آپ قرآن مجید کا فی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر اس طرح بولتے جاتے جیسے کوئی پختہ یادداشت کا حافظ اپنی قوتِ حافظہ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف روانگی سے پڑھتا جاتا ہے، پھر جب حضرتِ’’ صدر الشریعہ‘‘ اور دیگر علمائے حاضر ین اعلیٰ حضرت کے ترجمے کا کتب ِتفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ آ پ کا یہ برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیر ِمعتبرہ کے بالکل مطابق ہے۔
الغرض اِسی قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہاپھر وہ مبارک ساعت بھی آگئی کہ حضرتِ ’’صدر الشریعہ‘‘ نے اعلیٰ حضرت سے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کر والیا اور آپ کی کوششِ بلیغ کی بدولت دنیائے سنیت کو’’ کنز الایمان ‘‘کی دولت ِعظمیٰ نصیب ہوئی ۔ (انوارِ رضا مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور ص 81-82)
کاش وہ تفسیر لکھی جاتی
’’صدر الشریعہ‘‘ مولانا محمد امجد علی اعظمی صاحب فرماتے ہیں :
ترجمہ کے بعد میں نے چاہا تھا کہ اعلیٰ حضرت اس پر نظر ثانی فرمالیں اور جا بجا فوائد تحریر کر دیں۔ چنانچہ بہت اصر ار کے بعد یہ کام شروع کیا گیا، دو تین روز تک کچھ لکھا گیا، مگر جس انداز سے لکھوانا شرو ع کیا اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ قرآن پاک کی بہت بڑی تفسیر ہو گی ۔کم از کم دس بارہ جلد وں میں پوری ہو گی۔
اس وقت خیال پیدا ہو اکہ اتنی مبسوط تحریر کی کیا حاجت ؟ ہر صفحہ میں کچھ تھوڑی تھوڑی باتیں ہونی چاہئیں جو حاشیہ پر درج کر دی جائیں لہٰذا یہ تحریر جو ہو رہی تھی بند کر دی گئی اور دوسری(تحریر) کی نوبت نہ آئی ۔ کاش وہ مبسوط تحریر جو اعلیٰ حضرت لکھوا رہے تھے اگر پوری نہیں تو دو ایک پارے تک ہی ہوتی،جب بھی شائقین ِعلم کے لیے وہ جواہر پارے بہت مفید اور کار آمد ہوتے ۔ (سیر ت صدر الشریعہ از مولانا عطا ء الرحمن قادری مطبوعہ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور ص 175)
مولانا محمدحنیف خان رضوی صاحب نے اعلیٰ حضرت کی کتب میں سے انتخاب کر کے چھ سو آیات پر مشتمل تفسیر ی مباحث جمع کر کے شائع کر دئیے ہیں جو کہ بڑے سائز کی تین جلدوں(جامع الاحادیث جلد 8-9-10) پر محیط ہیں،جن کو پڑھ کر منصف مزاج حضرات اس بات کا ضرور اعتراف کریں گے کہ جو شخصیت ان آیات کی اس طرح محققانہ انداز میں تفسیر کرسکتی ہے وہ بلاشبہ پور ے قرآن کی تفسیر پر قادرتھی اور تمام مضامینِ قرآن اُس کے پیش نظر تھے ۔
مستقل فتویٰ نویسی
مولانا احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تیرہ سال دس مہینے اور چاردن کی عمر میں 14شعبان 1286ھ کو اپنے والد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغاز کیا،سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔پھر جب 1297میں مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے۔ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)
ایک سو پانچ علوم پر مہارت
سید ریاست علی قادری صاحب نے تو اپنے مقالہ ’’امام احمد رضا کی جدید علوم وفنون پر دسترس‘‘ میں جدید تحقیق و مطالعہ کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ:
’’اعلیٰ حضر ت کو ایک سو پانچ علوم وفنون پر دسترس و مہارت ِ تامہ و کاملہ حاصل تھی ۔ ‘‘
وہ لکھتے ہیں :امام احمد رضا نے ایک ہزار کے لگ بھگ کتب و رسائل تصنیف کئے ،جن میں 105سے زائد علوم کا احاطہ کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ فقہ کی سینکڑوں کتابوں پر حواشی لکھے جو ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ کثرت تصانیف اور متنوع علوم پر انہیں جو فوقیت حاصل تھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔
راقم الحروف(سید ریاست علی قادری) ’’کَنزُالعِلم ‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کرنا چاہتا ہے، جس میں 105علوم و فنون پر تبصرہ و تعارف پیش کیا جائے گا جس کی تفصیل یہ ہے :
(1)علم القرآن(2)قرأت(3)تجوید(4)تفسیر(5)علم حدیث (6)تخریج(7)فقہ (8)علم الکلام(9)علم العقائد(10)علم البیان (11)علم المعانی (12)علم المناظرہ (13)فتویٰ نویسی (14)سیرت نگاری(15)فلسفہ (16)منطق(17)تنقیدات(18)فضائل و مناقب (19)ادب (20)شاعری(21)نثر نگاری (22)حاشیہ نگاری(23)اسماء الرجال(24)علم الاخلاق (25)روحانیت (26)تصوف (27)سلوک(28)تاریخ و سیر(29)جدول (30)صرف و نحو (31)بدیع (32)علم الانساب (33)علم الفرائض (34)ردات (35)پندو نصائح (36) مکتوبات(37)ملفوظات (38)خطبات (39)جغرافیہ (40)تجارت (41)شماریات (42)صوتیات (43)مالیات (44)اقتصادیات (45)معاشرت (46)طبعیات (47)معاشیات (48)ہیئت (49)کیمیا (50)معدنیات (51)فلکیات (52)نجوم (53)جفر (54)ارضیات (55)تعلیم و تعلم (56)علم الحساب (57)زیجات (58)زائر چہ (59)تعویذات (60)طب (61)ادویات (62)لسانیات (63)رسم الخط (64)جر ح و تعدیل (65)ورد و اذکار (66)ایمانیات (67)تکسیر (68)توقیت (69)اوفاق (70)علم ریاضی (71)بنکاری (72)زراعت(73)تاریخ گوئی (74)سیاسیات (75)علم الاوقات (76)ردِّموسیقی (77)قانون (78)تشریحات (79)تحقیقات (80)علم الادیان (81)ماحولیات (82)علم الایام (83)تعبیر (84)عروض و قوانی (85)علم البر والبحر (86)علم الاوزان (87)حکمت (88)نقد ونظر (89)تعلیقات (90)موسمیات (91)شہریات (92)علم المناظر (93)نفسیات (94)صحافت (95)علم الاموال (96)عملیات (97)علم الاحکام (98)علم النور(99)ما بعد الطبعیات (100)عمرانیات (101)علم ِ رمل (102)لغت (103)استعارہ (104)حیاتیات (105)نباتات اور بے شما ر دوسرے علوم ممکن ہے کہ بعض اہل نقد و نظر کو فاضل مقالہ نگار کی مذکور ہ کی گئی تحقیق مبالغہ آمیز یا معتقدانہ معلوم ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ فاضل مقالہ نگار کی تحقیق میں ذرا بھی مبالغہ یا اعتقادی عنصر کا دخل نہیں اس لئے کہ اگر فاضل بریلوی کے تبحر علمی اور علوم پر ان کی مہارت و دسترس کے بارے میں تحقیق سے کام لیا جائے تو مذکورہ تعداد میں اور اضافہ کیا جاسکتا ہے،بلکہ فاضل بریلوی کی علوم پر دسترس و گرفت کا موضوع خود اتناوسیع ہے کہ جو مستقل طورسےتحقیق طلب ہے ۔
(امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری از ڈاکٹر سراج احمد بستوی مطبوعہ فرید بک سٹال لاہورص59تا64)
چھ گھنٹے سورہء والضُّحیٰ پر بیان
سید اظہر علی صاحب (ساکن محلہ ذخیر ہ )کا بیان ہے کہ:
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت حضر ت محب الرسول مولانا شاہ عبد القادر صاحب کے عرس شریف میں بدایون تشریف لے گئے ،وہاں 9بجے صبح سے 3بجے دن تک کامل چھ گھنٹے سورہء والضحیٰ پر حضور کا بیان ہوا۔
(دوران ِ بیان اعلیٰ حضرت نے)فرمایاکہ:’’اسی سورۃء مبارکہ کی کچھ آیاتِ کریمہ کی تفسیر میں 80جز (تقریباً چھ سو صفحات )رقم فرما کر چھوڑ دیا کہ اتنا وقت کہاں سے لاؤں کہ پورے کلام پاک کی تفسیر لکھ سکوں ‘‘۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص177)
علمُ الحدیث
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس طرح علم التفسیر میں مہارت ِ تامہ رکھتے تھے اسی طرح علم الحدیث میں بھی درجہء امامت پرفائز تھے ۔ مولانا محمد احمدمصباحی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
امام احمد رضا بلند پایہ محدث تھے،علمِ حدیث پر ان کو بڑا تبحر حاصل تھا اور ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا چنانچہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ حدیث کی کتابوں میں کون کون سی کتابیں پڑھی یا پڑھائی ہیں توآپ نے یہ جواب دیا:
پچاس سے زائد کتبِ حدیث میرے درس و تدریس و مطالعہ میں رہیں :
’’مسند امام اعظم، مؤطا امام محمد، کتا ب الآثار، امام طحاوی، مؤطاامام مالک، مسند ِامام شافعی، مسندِ امام محمد وسننِ دارمی، بخاری و مسلم، ابوداؤد وترمذی ونسائی و ابنِ ماجہ وخصائص نسائی، ملتقی ابن الجا رود و ذوعلل متناہیہ و مشکوٰۃ و جامع کبیر و جامع صغیر وملتقی ابن تیمیہ وبلوغ المرام، عمل الیوم واللیلہ ابن السنی وکتاب الترغیب وخصائص ِکبریٰ وکتاب الفرج بعد الشدَّۃ وکتاب الاسماء و الصفات و غیرہ پچاس سے زائد کتبِ حدیث میرے درس و تدریس و مطالعہ میں رہیں‘‘۔
امام احمد رضا کے وسعت ِمطالعہ کی شان یہ ہے کہ ’’شرح ِعقائد نسفی‘‘ کے مطالعہ کے وقت ستر شروح سامنے رہیں، ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
شرح عقائد میری دیکھی ہوئی ہے اور شرح عقائد نسفی کے ساتھ 70شروح و حواشی میں نے دیکھے۔ (امام احمد رضا کی فقہی بصیرت از محمد احمد مصباحی مطبوعہ مکتبہ رضا دارالاشاعت لاہور ص16)
مولانا محمد حنیف خان رضوی صاحب اپنی کتاب ’’جامع الاحادیث ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
علمِ حدیث اپنے تنوّع کے اعتبار سے نہایت وسیع علم ہے، امام سیوطی قدس سرہ نے ’’تدریب الراوی ‘‘میں تقریباً سو علوم شمار کرائے ہیں جن سے علم ِحدیث میں واسطہ ضروری ہے ۔ لہٰذا ان تمام علوم میں مہارت کے بعد ہی علمِ حدیث کا جامع اور اس علم میں درجہء کمال کو پہنچا جاسکتاہے ۔
اگر انہیں امام بخاری و مسلم دیکھتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں
جب ہم اعلیٰ حضرت کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کی تصانیفِ عالیہ کو دیکھتے ہیں تو فنِ حدیث،طرقِ حدیث، علل ِحدیث اور اسماء الرجال وغیر ہ میں بھی وہ انتہائی منزلِ کمال پر دکھائی دیتے ہیں اور یہی وہ وصف ہے جس میں کمال وانفرادیت ایک مجدد کے تجدیدی کارناموں کا رکنِ اعظم ہے ۔ فنِ حدیث میں اُ ن کی جو خدمات ہیں اِن سے اُن کی علمِ حدیث میں بصیرت و وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ حدیث کی معرفت اور اِ سکی صحت وعدم ِصحت، ضعف وسقم، حسن وغیر جملہ علومِ حدیث میں جو مہارتِ تامہ اُن کو حاصل تھی وہ بہت دور تک نظر نہیں آتی ہے اور یہ چیزیں ان کی کتب و رسائل میں مختلف انداز پر ہیں،کہیں تفصیل کے ساتھ مستقلاً ذکر ہے اورکہیں اختصار کے ساتھ ضمناً اور کہیں کہیں حدیث و معرفت ِحدیث اور مبادیات ِحدیث پر ایسی نفیس اور شاندار بحثیں ہیں کہ اگر انہیں امام بخاری و مسلم بھی دیکھتے تو اُن کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔ (امام احمد رضا اور علم حدیث از محمد عیسی رضوی صاحب مطبوعہ مکتبہ شبیر برادرز لاہور ص16)
اعلٰی حضرت کی شاعری
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم:
اعلیٰ حضرت کے منجھلے بھائی استاذِ زمن حضرتِ علامہ حسن رضا خا ن صاحب ’’حسن ‘‘بریلوی فنِّ شاعری میں حضرت ِداغ دہلوی کے شاگر د تھے،استاذِ زمن کی جب چند نعتیں جمع ہو جاتی تھیں تو اپنے صاحبزاد ے حضرت مولانا حسنین رضا خان کے بدست اپنے استاد حضرت ِداغ دہلوی کے پاس اصلاح کے لیے روانہ فرماتے تھے۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ استاذ ِزمن کا کچھ کلام لیکر مولانا حسنین رضا خان صاحب دہلی جارہے تھے، اعلیٰ حضرت نے دریافت فرمایا کہ کہاں جانا ہو رہا ہے مولانا حسنین رضا خان نے عرض کیا والد صاحب کا کلام لیکر استاد داغ دہلوی کے پاس جا رہا ہوں ۔ اعلیٰ حضرت اُس وقت وہ نعتِ پا ک قلمبند فرما رہے تھے جس کا مطلع ہے:
اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلائے دیئے ہیں
جس راہ چل دئے ہیں کوچے بسادئیے ہیں
ابھی مقطع نہیں لکھا تھا، فرمایا لیجئے! چند اشعار ہو گئے ہیں،ابھی مقطع نہیں لکھا ہے ،اس کو بھی دکھا لیجئے گا۔
چنانچہ مولانا حسنین رضاخان صاحب دہلی پہنچے اور استاذ الشعر اء حضرتِ داغ دہلوی سے ملاقات کی، اپنے والد ِماجد استاذِ زمن کا کلام پیش کیا۔حضرتِ داغ دہلوی نے اِس کی اصلاح کی، جب اصلاح فرماچکے تو مولانا حسنین میاں صاحب نے اعلیٰ حضرت کا وہ کلام بھی پیش کیااورکہا یہ کلام چچا جان اعلیٰ حضرت نے چلتے وقت دیاتھا اور فرمایا تھا کہ یہ بھی دکھاتے لائیے گا۔
حضرتِ داغ نے اس کو ملاحظہ فرمایا،مولانا حسنین میاں صاحب فرماتے ہیں:حضرت ِداغ اُس وقت نعت ِپاک کو گنگنار ہے تھے اور جھوم رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے، پڑھنے کے بعد حضرت ِداغ دہلوی نے فرمایا اِس نعتِ پاک میں تو کوئی ایسا حرف بھی مجھے نظر نہیں آتا جس میں کچھ قلم لگا سکوں، اور یہ کلام تو خود لکھا ہوا معلوم ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ کلام تو لکھوایا گیا ہے ،میں اس کلام کی فن کے اعتبار سے کیا کیا خوبیاں بیان کروں بس میری زبان پر تو یہ آرہا ہے کہ:
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں
اور فرمایا اس میں مقطع تھا بھی نہیں ،لیجئے مقطع بھی ہو گیا ،نیز اعلیٰ حضرت کو ایک خط لکھا کہ اس نعت ِپاک کو اپنے دیوان میں اس مقطع کے ساتھ شامل کر یں اس مقطع کو علیحدہ نہ کریں نہ دوسرا مقطع کہیں ۔(تجلیات امام احمد رضا از مولانا امانت رسول قادری مطبوعہ مکتبہ برکاتی پبلیشرز کراچی ص90)
اعلٰی حضرت کی رِیاضی دانی
اﷲ تعالیٰ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بے اندازہ عُلُومِ جَلِیلہ سے نوازا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کم و بیش پچاس عُلُوم میں قلم اُٹھایا اور قابلِ قدر کُتُب تصنیف فرمائیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ہر فن میں کافی دسترس حاصل تھی۔ علمِ توقیت، (عِلمِ۔ تَو۔ قِیْ ۔ ت ) میں اِس قَدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی مِلالیتے۔ وَقْت بِالکل صحیح ہوتا اور کبھی ایک مِنَٹ کا بھی فرق نہ ہوا۔ علمِ رِیاضی میں آپ یگانہ رُوزگار تھے۔ چُنانچِہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضِیاء الدین جو کہ رِیاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تَمغہ جات حاصل کیے ہوئے تھے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آئے۔ ارشاد ہوا، فرمائیے! اُنہوں نے کہا ، وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی آسانی سے عَرض کروں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا، کچھ تو فرمائیے۔ وائس چانسلر صاحب نے سوال پیش کیا تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اُسی وقت اس کا تَشَفّی بخش جواب دے دیا۔ اُنہوں نے انتہائی حیرت سے کہا کہ میں اِس مسئلہ کے لیے جرمن جانا چاہتا تھا اِتّفاقاً ہمارے دینیات کے پروفیسر مولانا سَیِّد سُلَیمان اشرف صاحِب نے میری راہنمائی فرمائی اور میں یہاں حاضر ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اِسی مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحِب بصد فرحت و مُسرّت واپس تشریف لے گئے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شخضیت سے اِس قدر مُتَأَثِّرہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوگئے۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت، ج ۱، ص ۲۲۳، ۲۲۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی) عِلاوہ ازیں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علمِ تکسِیر، علمِ ہَیئَت ، علمِ جَفَروغیرہ میں بھی کافی مَہارت رکھتے تھے۔
علمِ تکسیر میں مہارت
اعلیٰ حضرت جن علوم میں مہارت رکھتے تھے ان میں ایک علمِ تکسیر بھی ہے۔
علم ِ تکسیر کیا ہے؟
اعداد کو تقسیم کر کے تعویذ کے خانوں میں اس طرح لکھنا کہ ہر طرف کا مجموعہ برابر ہو’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں:
علمِ تکسیر بھی اِس زمانہ میں اُنہیں علوم میں سے ہے جس کے جاننے والے ہر صوبے میں ایک یا دو شخص ہوں گے، عوام کو اس سے کیا دلچسپی،علماء کو اس سے کیا غرض، مشائخِ کرام جن کے یہاں کی اور جن کے کام کی چیز ہے سو میں سے اَسّی ایسے ملیں گے جو اپنے مشائخ کے مجموعہء اعمال ’’یا مجربات ِدیربی یانافع الخلائق ‘‘سے نقوش اُلٹے سیدھے باقاعدہ یا بے قاعدہ لکھ دینا کافی سمجھتے ہیں ۔ کتنے فی صد ی نقشِ مثلث یا مربع قاعدہء مشہورہ سے بھرلینا جانتے ہیں ؟اور پوری چال سے نقوش بھرنا تو شاید چار پانچ سو میں سے دو ایک ہی کا حصہ ہو گا۔
اعلیٰ حضرت کتنے طریقوں سے بھرتے ہیں ؟
مولانا ظفرالدین بہاری صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں:
عرصے کی بات کہ ایک شاہ صاحب ’’مدرسہ ء اسلامیہ شمس الہدٰی پٹنہ ‘‘(مصنفِ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘مولانا ظفرالدین بہاری صاحب یہاں پڑھاتے تھے)میں تشریف لائے اور محب ِمحترم حامیء دین، واقفِ علوم عقلیہ و نقلیہ، مولانا مولوی مقبول احمد خان صاحب دربھنگی مدرسِ مدرسہ ھٰذا کے مہمان ہوئے اور اپنی عزت بنانے، وقار جمانے کو ادھر ادھر کی بات کرتے ہوئے فنِّ تکسیر کی واقفیت کا ذکر کیا۔
مولوی صاحب بہت ظریف طبیعت ہیں ،یہ سن کر ایسا انداز برتا جس ے اُن شاہ صاحب نے سمجھا کہ میرے فن دانی کے قائل اور معتقد ہو گئے،چنانچہ مہینہ دو مہینہ میں ایک پھیرا اِدھر ُان کا ہونے لگا اور مولانا کے یہاں ایک دو وقت قیام ضرور کرتے، یہ بھی مہمان نوازی فرماتے، جب اُن کی ڈینگ بہت بڑھی تو ایک دن بہت ہلکی زبان سے فرمایا کہ میرے مدرسے میں بھی ایک مدرس مولانا ظفر الدین بہاری ہیں وہ بھی فنِّ تکسیر جانتے ہیں ۔بہت حیرت ہوئی وہ تو سمجھ رہے تھے کہ مولانا مقبول احمد خان صاحب کے علم میں دنیا میں میں ہی ایک تکسیر جاننے والا ہوں اور اِسی وجہ سے ایسے زبردست معقولی ہونے پر بھی میری عزت کرتے ہیں ۔ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ ِاسی پٹنہ میں مولانا کے دوستوں میں اِسی مدرسے کے مدرِّسوں میں ایک شخص فنِّ تکسیر جاننے والے ہیں تو حیرت کی حد نہ رہی، بولے کہ اُن سے میری ملاقات کرا دیجئے گا۔ انہوں نے کہا وہ تو روازنہ مدرسہ کے وقت 10بجے مدرسے تشریف لاتے ہیں اور 4بجے ’’دریاپور‘‘ واپس چلے جاتے ہیں ۔
چنانچہ ایک دن مولوی صاحب شاہ صاحب کو لے کر میرے پاس تشریف لائے اوران کا تعارف کرواتے ہوئے،بہت سی خوبیاں بیان کیں ساتھ ہی اپنے خاص انداز سے فرمایا کہ : سب سے بڑا کمال آپ کا یہ ہے کہ آپ فن تکسیر جانتے ہیں ، میں سمجھ گیا ،میں نے کہا کہ اس سے بڑھ کر اورکیا کمال ہو گا کہ آپ وہ فن جانتے ہیں جس کے جاننے والے روئے زمیں سے معدوم و مفقو د نہیں تو قلیل الوجود ضرور ہیں ۔ اس پر شاہ صاحب نے فرمایا کہ: مجھے معلوم ہواہے کہ جناب کو بھی فنِّ تکسیر کا علم ہے میں نے کہا یہ مخلصوں کا محض حسنِ ظن ہے،کسی فن کے چند قواعد کا جان لینا فن کی واقفیت نہیں کہلاتی ہے ،ہاں اس فن سے ایک گونہ دلچسپی ضرور ہے ۔
اِس کے بعد میں نے اُن شاہ صاحب سے پوچھا کہ جناب ’’مربع‘‘ کتنے طریقے سے بھرتے ہیں؟بہت فخریہ فرمایا سولہ طریقے سے، میں نے کہا بس ! اِس پر فرمایا اور آپ !میں نے کہا کہ گیارہ سو باون (1152)طریقے سے ۔ بولے سچ! میں نے کہا کہ جھوٹ کہنا ہوتا تو کیا لاکھ دو لاکھ کا عدد مجھے معلوم نہ تھا گیارہ سو باون کی کیا خصوصیت تھی ۔ کہا: میرے سامنے بھر سکتے ہیں، میں نےکہا کہ ضرور، بلکہ میں نے بھر کر رکھے ہوئے ہیں، آج 4بجے میرے ساتھ’’دریا پور‘‘تشریف لے چلیں،مولانا مقبول احمد خاں صاحب کو بھی میں دعوت دیتا ہوںوہیں چائے ہوگی ،وہ کتاب میں حاضر کر دوں گا ، ایک ہی نقش ہے جو اتنے طریقوں سے بھرا ہوا ہے جس میں کوئی ایک دوسرے سے ملتا ہوانہیں پوچھا آپ نے کن سے سیکھا ؟میں نے اعلیٰ حضرت کا نام لیا ،یہ بھی اعلیٰ حضرت کے معتقد تھے ۔ نام سن کر اُن کو یقین ہو گیا ۔
میں نے بتایا تئیس سو تین طریقے سے:
مگر پوچھنے لگے کہ اعلیٰ حضرت کتنے طریقوں سے بھرتے ہیں ؟ میں نے کہا تئیس سو تین (2303)طریقے سے کہا کہ ’’آپ نے کیوں نہیں سیکھا ‘‘ میں نے کہا وہ تو علم کے دریا نہیں سمندر ہیں، جس فن کا ذکر آیا ایسی گفتگو فرماتے کہ معلوم ہوتا کہ عمر بھر اِسی علم کو دیکھا اوراِسی کی کتب بینی فرمائی ہے، اُن کے علوم کو میں کہاں تک حاصل کر سکتا ہوں۔
آخر 4بجے وہ میرے ساتھ دریا پور تشریف لائے اور وہ کاغذجس پر میں نے وہ نقوش لکھے تھے، ملاحظہ فرمایا ، بہت تعجب سے دیکھتے رہے اور اعلیٰ حضرت کی زیارت کے مشتاق ہو کر بعد ِمغرب واپس ہوئے ۔ پھر نہ معلوم کہ بریلی شریف حاضر ہوئے یا نہیں ۔
خیر بہر کیف جملہ علوم وفنون کی طرح فنّ تکسیر سے اعلیٰ حضر ت کو نہ صرف واقفیت ہی تھی بلکہ اس فن میں کمال اور مہارت رکھتے تھے بلکہ اگر مجتہد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص249)
تاریخ گوئی میں مہارت
تاریخ گوئی کیا ہے؟
کسی واقعہ کو ایسے اعداد میں ظاہر کرنا جس کے الفاظ بحسابِ ابجد جوڑنے سے زمانہء وقوع ظاہر ہو،مثلاً اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے’’تَجَلِّیُ الیَقِین بِاَنَّ نَبِیِنَا سَیِّدَِ المُرسَلِین‘‘ اگر اس کے عدد جمع کیے جائیں تو اس کا سنِ تصنیف نکل آتا ہے جو کہ 1305ھ ہے۔
تاریخ گوئی میں مَلَکَہ:
مولانا ظفرالدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
عالمُ الغیبِ والشہادۃجلَّ جلالہٗ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے اعلیٰ حضرت کو جملہ کمالاتِ انسانی کہ جو ایک ولی اللہ یکتائے زمانہ میں ہونے چاہئیں،بروجہ ِکمال جمع فرما دیا تھا، جس وصف ِکمال کو دیکھئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اِسی میں تمام عمر صرف فرماکر اس کو حاصل فرمایا ہے اور اس میں کمال پیدا کیا ہے،حالانکہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض موہبتِ عظمیٰ ونعمت کبریٰ ہے ،ایک ادنی توجہ سے زیادہ اِس کی طرف کبھی توجہ صرف نہیں فرمائی، انہی علوم میں تاریخ گوئی بھی ہے، اس میں وہ کمال اور ملکہ تھا کہ انسان جتنی دیر میں کوئی مفہوم لفظوں میں ادا کرتا ہے اعلیٰ حضرت اتنی دیر میں بے تکلف تاریخی مادے اور جملے ارشاد فرما دیا کرتے تھے ۔
ہر کتاب کا نام تاریخی:
جس کا بہت بڑا ثبوت حضور کی کتابوں میں اکثر و بیشتر کا تاریخی نام ہے اور وہ بھی ایسا چسپاں کہ بالکل مضمونِ کتاب کی توضیح و تفصیل کرنے والاہے۔
(حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص227)
علم ھئیت میں مہارت
مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اعلیٰ حضر ت کا علم کسبی و تحصیلی نہ تھا بلکہ محض وہبی و لدنی ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہ صرف میرا خیال نہیں بلکہ اعلیٰ حضرت کا بھی میرے گمان میں یہ عقیدہ تھا ۔ اِسی لئے حضور نے اپنے فتاویٰ شریف کا نام العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ(سرکار صلی للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عطاسے )رکھاتھا۔ اسی لئے نہ صرف فقہ اور دینیات بلکہ جس فن کی طرف توجہ فرمائی اپنے اس شعر کو سچ کر دکھایا اور حقائق و دقائق کے دریا بہا دیئے:
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
علمِ ہیئت میں اعلیٰ حضرت نے شرح چغمینی حضرت مولانا عبدالعلی صاحب رامپوری سے پڑھی لیکن اس فن میں ایسا کمال پیدا فرمایا کہ ’’تصریح ِشرح چغمینی‘‘ پر حاشیہ لکھا ۔ اس کے مشکل مقامات کو حل فرمایا، پھر اعلیٰ حضرت کا کسی کتاب پر حاشیہ لکھنا علمائے معاصرین کی طرح نہ تھا کہ کچھ اِدھراُدھر سے نقل کیا اور کسی کتاب پر چسپا ں کر دیا بلکہ وہ جو کچھ تحریر فرماتے اپنے علم اور فیضانِ الہٰی سے بیان کرتے تھے۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص244)
علمِ توقیت میں مہارت
مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ہیئت و نجوم میں کمال کے ساتھ علمِ توقیت(اوقات کا علم) میں کمال تو حدِّا یجاد کے درجہ پر تھا یعنی اگر اِس فن کا موجد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ علماء نے جستہ جستہ اس کو مختلف مقامات پر لکھا ہے لیکن میرے علم میں کوئی مستقل کتاب اس فن میں نہ تھی۔
سورج اور ستارے دیکھ کر وقت بتا دیتے :
مولوی برکات احمد صاحب صدیقی پیلی بھیتی کا بیان ہے کہ:
اعلیٰ حضرت کو ستارہ شناسی میں اس قدر کمال تھا کہ آفتاب کو دیکھ کر گھڑی ملا لیا کرتے تھے۔ فقیرنے بوقتِ شب ستاروں کو ملاحظہ فرماکر وقت بتانے اور گھڑی ملانے کے واقعا ت بھی سنے اور دیکھے ہیں اور بلکل صحیح وقت ہوتا،ایک منٹ کا بھی فرق نہ پڑتا ۔
آفتاب نکلنے میں ابھی دو منٹ اڑتالیس سیکنڈ باقی ہیں:
مولوی برکات احمد صاحب مزید فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت بدایون تشریف لے گئے، حضرتِ محب الرسول مولانا شاہ عبدالقادر صاحب بدایونی کے یہاں مہمان تھے، ’’مدرسہ قادریہ‘‘کی مسجد میں خود حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب بدایونی امامت فرماتے ۔
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت بھی وہاں جلوہ گر تھے ،جب فجر کی تکبیر شروع ہوئی تو حضرت مولانا عبدالقادر صاحب نے اعلیٰ حضرت کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا ۔اعلیٰ حضرت نے نماز ِفجر کی امامت کی اور قراء ت اتنی طویل فرمائی کہ مولانا عبد القادر کو بعد ِسلام شک ہوا کہ کہیں آفتاب طلوع تو نہیں ہو گیا،مسجد سے نکل نکل کر لوگ آفتاب کی جانب دیکھنے لگے، یہ حال دیکھ کر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ ’’ آفتاب نکلنے میں ابھی2 منٹ 48سیکنڈ باقی ہیں‘‘ یہ سن کر لوگوں کی تسلی ہو گئی ۔
(حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص 248)
تصانیف
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مختلف عُنوانات پر کم وبیش ایک ہزار کتابیں لکھی ہیں۔یوں توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک لاکھوں فتوے لکھے، لیکن افسوس! کہ سب کو نَقل نہ کیا جاسکا، جو نَقل کرلیے گئے تھے ان کا نام ” العطایا النبّویۃ فی الفتاوی الرضویۃ ”رکھا گیا ۔ فتاویٰ رضویہ (جدید) کی 30 جلدیں ہیں جن کے کُل صفحات: 21656 ، کل سُوالات وجوابات: 6847 اور کل رسائل: 206 ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،ج ۳۰،ص ۱۰، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔ قرآن و حدیث ، فِقْہْ ،مَنْطِق اور کلام وغیرہ میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وُسْعَتِ نظری کا اندازہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فتاوٰی کے مُطالَعے سے ہی ہوسکتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چند دیگر کُتُب کے نام درج ذیل ہیں: “ سبحٰنُ السُّبُّوح عَن عیبِ کِذب مَقْبُوح ”سچے خدا پر جھوٹ کا بہتان باندھنے والوں کے رد میں یہ رسالہ تحریر فرمایا ،جس نے مخالفین کے دم توڑ دئیے اور قلم نچوڑ دئیے۔”نُزُوْلِ آیاتِ فُرقان بَسُکونِ زمین و آسمان” اس کتاب میں آپ نے قرآنی آیات سے زمین کو ساکِن ثابِت کیا ہے ۔ سائنسدانوں کے اس نظریے کا کہ زمین گردِش کرتی ہے رَدّ فرمایا ہے۔علاوہ ازیں یہ کتابیں تحریر فرمائیں: المُعْتَمَدُ الْمُسْتَنَد ، تَجَلِّیُّ الْیقین، اَلْکَوکَبَۃُ الشِّھابِیۃ، سِلّ السُّیُوف الہِندیۃ ، حیاۃُ الموات وغیرہ۔