اوصافِ جمیلہ
- قلیلُ الغذا
- مسجد کا ادب و احترام
- فتویٰ اور تقویٰ
- قرضِ حسنہ دیا کرتے
- ایک غریب‘یتیم بچے کی دلجوئی
- قدم بوسی نہ کرنے دیتے
- ساد گی
- اطاعتِ والدین
- حیرت انگیز قُوتِ حافظہ
- صبرو رضاکی تلقینِ
- حق گوئی
- اعلیٰ حضرت کی انفرادی کوشش
اعلیٰ حضرت نحیف الجثہ(کمزور جسم والے) اور نہایت قلیلُ الغذا تھے،اُن کی عام غذا چکی کے پسے ہوئے آٹے کی روٹی اور بکری کا قورمہ تھا ۔آخرِ عمر میں اُن کی غذا اور بھی کم رہ گئی تھی فقط ایک پیالی شوربا بکری کا بغیر مرچ کا اور ایک ڈیڑھ بسکٹ سوجی کا تناول فرماتے تھے۔ کھانے پینے کے معاملے میں آپ نہایت سادہ تھے۔
ایک بارآپ کی اہلیہء محترمہ نے آپ کی علمی مصروفیت دیکھ کر جہاں آپ کاغذات اور کتابیں پھیلائے ہوئے بیٹھے تھے،دستر خوان بچھا کر قورمہ کا پیالہ رکھ دیا اور چپاتیاں دسترخوان کے ایک گوشے میں لپیٹ دیں کہ ٹھنڈی نہ ہو جائیں۔ کچھ دیر بعد دیکھنے تشریف لائیں کہ حضرت کھانا تناول فرماچکے یا نہیں تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ سالن آپ نے نوش فرما لیا ہے لیکن چپاتیاں دسترخوان میں اُسی طرح لپٹی رکھی ہوئی ہیں،پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ: چپاتیاں تو میں نے دیکھی نہیں،سمجھا ابھی نہیں پکی ہیں لہٰذامیں نے اطمینا ن سے بوٹیاں کھا لیں، اور شوربا پی لیاہے۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج۱، ص۵۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
روزہ میں ایک وقت کھانا
ماہِ رمضان المبارک میں تو آپ کی غذابالکل ہی قلیل ہو جاتی، مولانا محمد حسین صاحب میرٹھی بیان کرتے ہیں کہ ایک سال میں نے بریلی شریف میں رمضان شریف کی 20تاریخ سے اعتکاف کیا ،حضورِ اعلیٰ حضرت جب مسجد میں آتے تو فرماتے جی چاہتا ہے کہ میں بھی اعتکاف کروں مگر فرصت نہیں ملتی ،آخر 26ماہ مبارک کو فرمایا کہ آج سے میں بھی معتکف ہو جاؤں(اور آپ معتکف ہو گئے)۔ آپ افطار کے بعد صرف پان کھالیتے اور سحر کے وقت ایک چھوٹے سے پیالے میں فیرنی اور ایک پیالے میں چٹنی آیا کرتی تھی ایک دن میں نے عرض کی حضور!فیرنی اور چٹنی کا کیا جوڑ؟فرمایا: نمک سے کھانا شروع کرنا اور نمک ہی پر ختم کرنا سنت ہے۔ (مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 95)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے معمولات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ مساجد کا بہت ادب و احترام فرمایا کرتے ،جس کی چند جھلکیاں درجہ ذیل سطور میں پیش کی جاتی ہیں :
درمیانی دروازے سے داخل ہوتے
جب بھی مسجد میں تشریف لاتے ہمیشہ وسطی در سے داخل ہوا کرتے ،اگرچہ آس پاس کے درواز وں سے داخل ہونے میں سہولت ہی کیوں نہ ہو،بعض اوقات اورادو وظائف مسجد شریف ہی میں بحالتِ خرام (چلتے ہوئے)شمالاً جنوباً پڑھا کرتے مگر منتہائے فرشِ مسجد سے واپسی ہمیشہ قبلہ رو ہو کر ہی ہوتی،کبھی پشت کرتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ لاہور ص,261)
ہر قدم دایاں
جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز فریضہء فجر ادا کرنے کے لیے خلاف ِمعمول کسی قدر حضور(اعلیٰ حضرت) کو دیر ہو گئی ، نمازیوں کی نگاہیں بار بار کاشانہء اقدس کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ عین انتظار میں جلدی جلدی تشریف لائے، اُس وقت برادرم قناعت علی نے اپنا یہ خیال مجھ سے کہا کہ اس تنگ وقت میں دیکھنا یہ ہے کہ حضور دایاں قدم مسجد میں پہلے رکھتے ہیں یا بایاں ۔ مگرقربان اُس ذاتِ کریم کے کہ دروازہ ء مسجد کے زینے پر جس وقت قدمِ مبارک پہنچتا ہے تو سیدھا، توسیعی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، قدیمی فرش ِمسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا ، آگے صحن مسجد میں ایک صف بچھی تھی اس پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، اور اسی پر بس نہیں ہر صف پر تقدیم سیدھے ہی قدم سے فرمائی یہاں تک کہ محراب میں مصلیٰ پر قدمِ پاک سیدھا ہی پہنچتا ہے۔
مسجد میں پورا قدم نہ رکھتے
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرشِ مسجد پر ایڑھی اور انگوٹھے کے بل چلا کرتے تھے اوردوسروں کو بھی نصیحت فرمایا کرتے کہ مسجد کے فرش پر چلتے ہوئے آواز پیدا نہیں ہونی چاہیے۔(حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص862)
- جس فقیہ کے پاس فتوے اتنی کثرت سے آتے ہوں کہ اُس کے اوقات جوابِ مسائل میں مصروف ہوں،اُس سے جماعت جو واجب ہے اور سنن ِ موکدہ جو قریب بواجب ہیں معاف ہوجاتی ہیں، لیکن اس کثرت ِ فتویٰ کے باوجود ہمیشہ آپ نے جماعت کی پابندی فرمائی اورکبھی بھی سنن ِ موکدہ نہ چھوڑیں۔
- جو شخص بیماری میں اتنا لاغر ہو کہ مسجد نہیں پہنچ سکتا ،یا جا سکتا ہے لیکن مرض بڑھ جائے گا ،اُس کے لیے جماعت چھوڑنا جائز ہے مگر اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخری بیماری جس میں وصال فرمایا، حال یہ تھا کہ مسجد تک از خود نہیں جا سکتے تھے پھر بھی فوتِ جماعت گوارا نہ فرمائی ۔اِن ہی دنو ں میں’’فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ میں ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’آپ کی رجسٹری 15ربیع الآخر شریف کو آئی ۔میں 12ربیع الاول شریف کی مجلس پڑھ کر ایسا علیل ہوا کہ کبھی نہ ہواتھا۔ میں نے وصیت نامہ بھی لکھوا دیا تھا ۔ آج تک یہ حالت ہے کہ دروازہ سے ‘‘متصل مسجد ہے ،چارآدمی کرسی پربٹھا کر مسجد لے جاتے اور لاتے ہیں ۔
- شیخ ِفانی جو روزہ سے عاجزہو اُس کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے اورفدیہ ادا کرے۔ یا جو سخت بیمار ہے کہ طاقتِ روزہ نہیں، اس کے لیے قضاء جائز ہے ۔زندگی کے آخری سالوں میں اعلیٰ حضرت کا یہی حال تھا کہ بریلی میں روزہ نہیں رکھ سکتے تھے ۔لیکن اُنہوں نے اپنے لیے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ مجھ پر روزہ فرض ہے کیونکہ نینی تال (ایک پہاڑی علاقہ) میں ٹھنڈ ک کے باعث روزہ رکھا جا سکتاہے اور میں وہاں جا کر قیام کرنے پر قادر ہوں لہٰذا مجھ پر روزہ فرض ہے ۔
- باقاعدہ ٹوپی کرتا ،پاجامہ،یا تہبند پہن کر نماز بلاشبہ جائز ہے۔تنزیہی کراہت بھی نہیں، ہاں عمامہ بھی ہو تو یقینا مستحب ہے ۔ اعلیٰ حضرت باوجودیکہ بہت حار(گرم) مزاج تھے۔ مگر کیسی ہی گرمی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دستار اور انگرکھے کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔ خصوصاً فرض تو کبھی صرف ٹوپی اور کُرتے کے ساتھ ادا نہ کیے۔ (امام احمد رضا اور ردبدعات ومنکرات از علامہ یسین اختر مصباحی مطبوعہ لاہور ص62)
(جنابِ مولانا حضرت حافظ یقین الدین صاحب اُن خوش نصیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں کہ جن کے پیچھے اعلیٰ حضرت نماز پڑھ لیا کرتے تھے)۔چنانچہ مولاناامجد علی اعظمی صاحب فرماتے ہیں
اعلیٰ حضرت کی مسجد میں اُن کی موجودگی میں اُن کے حکم سے صر ف چار اشخاص نمازیں پڑھایا کرتے تھے ۔
- مولانا حامد رضا خان صاحب
- مولانا محمد رضا خان صاحب
- حافظ یقین الدین صاحب ۔یہ اعلیٰ حضرت کے خلیفہ بھی تھے اور قرآن ِپاک رمضان میں بھی سُنایا کرتے تھے ۔
- یہ فقیر (مولانا امجد علی اعظمی صاحب )۔۔۔نمازوں کی ادائیگی میں اتنی احتیاطیں کی جاتیں جن کو کہیں نہ دیکھا ۔
(تذکرہ اعلیٰ حضرت بزبان صدر الشریعہ از مولانا عطا ء الرحمن مکتبہ اعلیٰ حضرت ص 32)
اس کے جواب میں بذریعہء تار مجھے ارشاد فرمایا: قرضہ کو خدا کے سُپر د کرکے فوراً حاضر ہو ۔ میں شعبان کی آخری تاریخ کو بریلی شریف پہنچا اور فضلِ الہٰی سے قرآن ِعظیم (تراویح میں پڑھانا )شروع کر دیا ۔اعلیٰ حضر ت نے ارشاد فرمایا:قرضہ ادا کر دیا جائے ؟میں نے عرض کی حضور! ایک برس کا وعدہ ہے اور چھے مہینے گزر چکے ہیں ،شوال میں مَیں واپس چلا گیا ۔ اعلیٰ حضرت مجھے ماہانہ کچھ رقم بھیجتے رہے یہاں تک کہ وقتِ معینہ پر قرضہ ادا ہو گیا ۔ بریلی شریف رہتے ہوئے بھی مجھ پر کچھ قرض ہو گیا تھا ، وہ بھی اعلیٰ حضرت نے ادا فرمایا ،یہ روپیہ میں کئی برس تک آپ کو واپس نہ دے سکا ۔
کسی کے ذمہ میں آخرت پر نہیں رکھا
اعلٰی حضر ت کا دور یا د آتا ہے
ایک کمسن صاحبزادے نہایت ہی بے تکلفانہ انداز میں سادگی کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کی :میری بوا(یعنی والدہ ) نے آپ کی دعوت کی ہے،کل صبح کو بلایا ہے ۔اعلیٰ حضرت نے اُن سے دریافت فرمایا مجھے دعوت میں کیا کھلاؤ گے؟اس پر اُن صاحبزادے نے اپنے کُرتے کا دامن جو دونوں ہاتھوں سے پکڑ ے ہوئے تھے پھیلا دیا، جس میں ماش کی دال اور دو چار مرچیں پڑی ہوئی تھیں، کہنے لگے دیکھئے ناں!یہ دال لایا ہوں ۔ حضورنے اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے فرمایا :اچھا! میں اوریہ( حاجی کفایت اللہ صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )کل دس بجے دن کے آئیں گے، پھر حاجی صاحب سے فرمایا مکان کا پتہ دریافت کر لیجئے ۔ غرض صاحبزادے مکان کا پتہ بتا کر خوش خوش چلے گئے ۔ دوسرے دن وقت ِ معین پر حضور عصائے مبارک ہاتھ میں لئے ہوئے باہر تشریف لائے اور حاجی صاحب سے فرمایا چلئے۔ اُنہوں نے عرض کی کہاں؟فرمایا اُن صاحبزادے کے ہاں دعو ت کا وعدہ جو کیا تھا،آپ کو مکان کا پتا معلوم ہو گیا یا نہیں ؟عرض کیا :جی حضور ’’ محلہ ملوکپور ‘‘ میں ہے اور ساتھ ہو لئے ۔
جس وقت مکان پر پہنچے تو وہ صاحبزادے دروازہ پر کھڑے انتظار میں تھے ،حضور کو دیکھتے ہی یہ کہتے ہوئے بھاگے ارے بوا! مولوی صاحب آگئے،آپ مکان کے اند ر تشریف لے گئے، اندر دروازہ کے قریب ہی ایک چھپرپڑا ہوا تھا ،وہاں کھڑے ہو کر انتظار فرمانے لگے کچھ دیرکے بعد ایک بوسید ہ چٹائی (آپ کے تشریف فرما ہونے کے لیے )آئی اور ڈھلیا میں موٹی موٹی باجر ہ کی روٹیا ں اور مٹی کی رکابی میں وہی ماش کی دال جس میں مرچوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے(سامنے) لا کر رکھی دی اور کہنے لگے: کھائیے!
حضور نے فرمایا بہت اچھا کھاتا ہوں! ہاتھ دھونے کے لیے پانی لے آئیے ۔ادھر وہ صاحبزادے پانی لانے کو گئے اور اِدھر حاجی صاحب نے کہا کہ حضور یہ مکان نقارچی(نقارہ بجانے والا) کا ہے۔حضور یہ سن کر(غایت تقویٰ کی وجہ سے) کبیدہ خاطر ہوئے او رفرمایا’’ابھی کیوں کہا،کھانے کے بعد کہاہوتا‘‘۔
اتنے میں وہ صاحبزادے پانی لے کر حاضر ہوئے ، حضور نے دریافت فرمایا کہ: آپ کے والد کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں ؟ دروازے کے پردے میں سے اُن صاحبزاد ے کی والد ہ نے عرض کی :حضور !میر ے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، وہ کسی زمانے میں نوبت بجاتے تھے اس کے بعد توبہ کر لی تھی ، اب صرف یہ لڑکا ہے جو راج مزدوروں کے ساتھ مزدوری کرتا ہے۔حضور نے(مسرت سے) الحمد للہ کہا اور دُعائے خیر و برکت فرمائی ۔
حاجی صاحب نے حضور کے ہاتھ دھلوائے اور خود بھی ہاتھ دھو کر شریکِ طعام ہو گئے ،مگر دل ہی دل میں حاجی صاحب کے یہ خیال گشت کر رہا تھا کہ حضور کو کھانے میں بہت احتیاط ہے ۔ غذا میں سوجی کا بسکٹ استعمال ہو تا ہے ۔ یہ روٹی اوروہ بھی باجرہ کی اور اس پر ماش کی دال کس طرح تناول فرمائیں گے۔مگر قربان اِس اخلا ق اور دلداری کے کہ میزبان کی خوشی کے لیے خوب سیر ہو کر کھایا ۔
حاجی صاحب فرماتے تھے کہ میں جب تک کھاتا رہاحضور بھی برابر تناول فرماتے رہے، وہاں سے واپسی پر حاجی صاحب کے شبہ کو رفع فرمانے کے لیے ارشاد فرمایا: اگر ایسی خلوص کی دعوت روز ہو تو میں روز قبول کر وں۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص165)
ان قدموں میں کیا رکھا ہے ؟
ایک مرتبہ حضورسید ی اعلیٰ حضرت کسی دوسرے شخص کی طرف متوجہ تھے کہ پیچھے سے (آپ کے مرید)حاجی نصرت یار خان صاحب قادری رضوی نے آکر قدم چوم لیے۔ اعلیٰ حضرت کو اس سے بہت رنج ہوا اورچہرہء مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا :
’’نصرت یار خان! اس سے بہتر تھا کہ میرے سینے میں تلوار کی نوک پیوست کرکے پیٹھ کی طرف نکال لیتے ، مجھے سخت اذیت اس سے ہوئی ، ان قدموں میں کیا رکھا ہے ؟ خوب یاد رکھو! اب کبھی ایسا نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گئے‘‘۔
جنابِ سید ایو ب علی صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’جب بھی مزارِ پُر انوارِ (سید ی اعلیٰ حضرت )پر حاضری ہوتی ہے فوراً نصر ت یار خان کا واقعہ یاد آجاتا ہے اور اسی وجہ سے پائنتی کی جانب قبر شریف کو کبھی ہاتھ نہیں لگا تاکہ حضور کی روح ِپا ک کو ایذا پہنچے گی‘‘۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص739)
حضور سید ی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے بڑی سادگی سے زندگی بسر فرمائی ۔آپ نے ہر شعبہء زندگی میں سادگی کواپنایا ،خواہ لباس ہو ، خوارک ہو ،یا رہن سہن.
’’حیات ِاعلیٰ حضرت‘‘ میں ہے کہ آپ اس قدر سادہ وضع میں رہتے کہ کوئی(نووارد)شخص یہ بھی خیال نہیں کرسکتا تھاکہ حضرت مولاناامام احمد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ،جن کی شہرت شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک ہے، یہی ہیں۔
احمد رضا میں ہی ہوں
ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہو ا کہ ایک صاحب کا ٹھیاواڑ سے حضور کی شہرت سن کر بریلی تشریف لائے ۔ ظہر کا وقت تھا اعلیٰ حضرت مسجد میں وضو فرما رہے تھے۔ سادہ وضع تھی ،چوڑی مہری کا پاجامہ ،ململ کا چھوٹا کرتہ ،معمولی ٹوپی ، مسجد کی فصیل پر بیٹھے ہوئے مٹی کے لوٹو ں سے وضو فرمارہے تھے کہ وہ صاحب مسجد میں تشریف لائے اور انہوں نے السلام علیکم کہا، اعلیٰ حضرت نے جوابِ سلام دیا ۔ اِس کے بعد انہوں نے اعلیٰ حضرت ہی سے دریافت فرمایا:’’میں مولانا احمد رضا خان کی زیارت کو آیا ہوں‘‘۔
اعلیٰ حضرت نے فرمایا :
احمد رضا میں ہی ہوں ،انہوں نے کہا کہ میں آپ کو نہیں میں مولانا احمد رضا خان کو ملنے آیا ہوں۔
آپ کبھی شہرت کا لباس،قیمتی عبا،قیمتی عمامہ وغیرہ استعمال نہیں فرماتے تھے،نہ ہی خاص مشائخانہ انداز اختیا ر فرمایا مثلاً خانقاہ، چلہ ، حلقہ وغیرہ، نہ ہی خدام کا مجمع ۔ آگے ،پیچھے ،ہٹو ،بڑھو کا اندازبھی نہ رکھا کہ اس کی وجہ سے لوگ خواہ مخواہ داخل ِسلسلہ ء عالیہ ہوتے ،پھر بھی مریدوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرکے قریب ایک لاکھ کے پہنچ گئی تھی۔
دیگر مشائخِ عظام سے ہٹ کر
مزید ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں ہے کہ :
باوجود یکہ تبرکاتِ شریفہ و آثارِ منیفہ میں بہت سی نایاب چیزیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرمائیں مگر ہر مہینہ ان کی زیارت کرانے کا بھی دستور نہ تھا کہ اس ذریعہ سے لوگ خواہ مخواہ رجوع (مائل)ہوتے ۔ نہ اورپیروں کی طرح’’اللہ بھلا کرے بابا‘‘نہ آپ کا طریقہ یہ رہا جس میں ہر شخص خوش رہے ،نہ مذہب سے بحث نہ ملت سے غرض ۔ جو آیا سلام میاں کہا، فرمایا اللہ بھلا کرے ۔
بلکہ آپ ہمیشہ مرابط(وابستہ) فی سبیل اللہ رہے ۔ غازی جہادِ بالسیف والسِّنان (تیر و تلوار کے ساتھ ) کرتا ہے جبکہ آپ ہمیشہ ترقیءاسلام و دین کے لیے جہاد بالقلم واللِّسان(قلم و زبان کے ذریعے) میں مشغول رہے اور دین کے خلاف جس نے کوئی آواز بلند کی یا تحریر لکھی فوراً اس کی سرکوبی کے لیے مستعد(تیار)ہوگئے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ازمولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص 696)
والدِ گرامی کے وصال کے بعد اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی والدہ محترمہ کی کس طرح اطاعت و دلجوئی فرمائی ’’حیات اعلیٰ حضرت ‘‘ کے درجہ ذیل اقتباس سے آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں :
سب اختیا روالد ہء ماجد ہ کے سپرد تھا:
جب اعلیٰ حضرت کے والد ماجد مولاناشاہ نقی علی خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہواتو آپ اپنے حصہءجائیداد کے خود مالک تھے،مگر سب اختیاروالد ہء ماجد ہ کے سپرد تھا ۔ وہ پوری مالکہ و متصرفہ تھیں، جس طرح چاہتیں صرف کرتیں ۔ جب آپ کو کتابوں کی خریداری کے لیے کسی غیر معمولی رقم کی ضرورت پڑتی تو والدہ ماجدہ کی خدمت میں درخواست کرتے، اور اپنی ضرورت ظاہر کرتے ۔جب وہ اجازت دیتیں اور درخواست منظور کرتیں تو کتابیں منگواتے تھے۔
اماں اور ماریئے:
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت قبلہ(اپنے صاحبزادے)حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کو(جبکہ وہ چھوٹے بچے تھے) گھر کے ایک دالان میں پڑھانے بیٹھے ،وہ پچھلا سبق سنکر آگے سبق دیتے تھے پچھلا سبق جو سنا تو وہ یاد نہ تھا اس پر ان کو سزادی ۔ اعلیٰ حضرت کی والدہ محترمہ جو دوسرے دالان کے کسی گوشے میں تشریف فرماتھیں انھیں کسی طرح اس کی خبر ہو گئی وہ(اپنے پوتے) حضر ت حجۃ الاسلام کو بہت چاہتی تھیں ، غصہ میں بھری ہوئی آئیں اور اعلیٰ حضرت قبلہ کی پشت پر ایک دوہتڑ(دونوں ہاتھوں سے مارنا )مارا اور فرمایا ’’تم میرے حامد کو مارتے ہو‘‘ اعلیٰ حضرت فوراً جھک کر کھڑے ہو گئے اوراپنی والدہ محترمہ سے عرض کیا کہ ’’اماں اور ماریئے جب تک کہ آپ کا غصہ فر و نہ ہو‘‘ ۔یہ سننے کے بعد انہوں نے ایک دوہتڑاورمارا،اعلیٰ حضرت سر جھکائے کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ خو د واپس تشریف لے گئیں ۔ اس وقت تو جو غصہ میں ہونا تھا ہو گیا مگربعدمیں اس واقعہ کا ذکر جب بھی کرتیں تو آبدیدہ ہو کر فرماتیں کہ دو ہتڑ مارنے سے پہلے میرے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے کہ ایسے مطیع و فرماں بردار بیٹے کہ جس نے خود کو پٹنے کے لیے پیش کر دیاکیسے مارا۔ افسوس ۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مکتبہ برکاتی پبلشرز ص91)
دوسرے حج پر والدہ سے اجازت کیسے لی:
یہ میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ حضرت مولانا محمد رضا خان (اعلیٰ حضر ت کے برادرِ اصغر ) اور(شہزادہ ء اعلیٰ حضرت) حضرتِ حجۃ الاسلام مولاناشاہ حامد رضا خان اور حضور (اعلیٰ حضرت)کی اہلیہ محترمہ 1323ھ بمطابق 1905ء میں حج و زیارت کے لیے روانہ ہوئیں،تواعلیٰ حضرت خود جھانسی تک اُن کو پہنچانے تشریف لے گئے ۔ کہ وہاں سے بمبئی میل (ریل کا نام )پر وہ لوگ روانہ ہونے تھے۔ جو سیدھی بمبئی جاتی اور کہیں بدلنا نہ پڑتی۔
اس وقت تک اعلیٰ حضرت کا قصد حج و زیارت کے لیے سفر کا بالکل نہ تھا۔کیونکہ پہلے ہی حجِ فرض ادا ہو چکا تھا ۔ زیارت سے مشرف ہوچکے تھے ،صرف ان کو مشایعت(رخصت کرنے کے لیے چند قدم ساتھ جانا ) مقصود تھی۔ اسی درمیان میں اعلیٰ حضرت کو اپنی نعتیہ غزل یاد آگئی۔ جس کا مطلع یہ ہے:
گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر
گزرے رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سار ا ہو کر
وائے محرومیء قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیا ہمرَہ ِ زُوّارِ مدینہ ہوکر
پھر اٹھا ولولہء یادِ مغیلانِ عرب
پھر کھنچا دامنِ دل سوئے بیابانِ عرب
قدموں پر سر رکھ دیا :
(بریلی شریف واپس پہنچنے کے بعد میں)عشاکی نماز سے اول وقت ہی فارغ ہولیا ۔شِکْرَم(یعنی چار پہیوں والی مخصوص گاڑی)بھی آگئی ۔ صرف والدہ ماجدہ سے اِجازت لینا باقی رہ گئی جو نہایت اہم مَسْئَلَہ تھا اور گویا اس کا یقین تھا کہ وہ اِجازت نہ دیں گی، کس طرح عرض کروں،اور بغیر اجازتِ والد ہ حج ِ نفل کو جانا حرام ۔ آخر کار اندر مکان میں گیا، دیکھا کہ حضرت ِوالدہ ماجدہ چادر اوڑھے آرام فرماتی ہیں ۔ میں نے آنکھیں بند کر کے قدموں پر سر رکھ دیا ،وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھیں اور فرمایا :’’کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا :’’حضور !مجھے حج کی اجازت دے دیجئے۔‘‘ پہلا لفظ جو فرمایا یہ تھا کہ :’’خدا حافظ!‘‘۔
حیرت انگیز قُوتِ حافظہ
حضرت ابو حامِد سیِّد محمد محدِّث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہتکمیلِ جواب کے لیے جُزئِیّاتِ فِقْہ کی تلاشی میں جو لوگ تھک جاتے وہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں عَرض کرتے اور حوالہ جات طلب کرتے تو اُسی وقت آپ فرمادیتے کہ “رَدُّالمُحْتَار”جلد فُلاں کے فُلاں صَفَحہ پر فُلاں سَطر میں اِن الفاظ کے ساتھ جُزئِیّہ موجود ہے۔”دُرِّ مُخْتَار” کے فُلاں صَفَحے پر فُلاں سَطر میں عبارت یہ ہے۔ “عالمگیری”میں بقید جلد و صَفَحہ وَسَطر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہِندیہ میں خَیریہ میں “مَبْسُوط” میں ایک ایک کتاب فِقہ کی اصل عبارت مع صَفَحہ وسَطر بتادیتے اور جب کتابوں میں دیکھا جاتا تو وُہی صَفَحہ وسَطر و عبارت پاتے جو زَبانِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا تھا۔ اِس کو ہم زِیادہ سے زِیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ خُداداد قوّتِ حافِظہ سے چودہ سو سال کی کتابیں حِفظ تھیں۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج ۱، ص ۲۱۰ ،مکتبۃ المدینہ ، بابُ المدینہ کراچی)
صرف ایک ماہ میں حِفْظِ قراٰن
حضرتِ جناب سیِّد ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقِف حضرات میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں، حالانکہ میں اِس لقب کا اَہل نہیں ہوں۔ سَیِّدایّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی روز سے دَور شُروع کردیا جس کا وَقْت غالِباً عشاء کا وُضو فرمانے کے بعد سے جماعت قائم ہونے تک مخصوص تھا۔ روزانہ ایک پارہ یاد فرمالیا کرتے تھے، یہاں تک کہ تیسویں روزتیسواں پارہ یاد فرمالیا۔ایک موقعہ پر فرمایا کہ میں نے کلامِ پاک بالتَّرتیب بکوشِش یاد کرلیا اور یہ اِس لیے کہ ان بندگانِ خُداکا (جو میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں) کہنا غلط ثابت نہ ہو۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت، ج۱، ص ۲۰۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
صبرو رضاکی تلقینِ
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نہ صرف خود صبر ورضا کا پیکر تھے بلکہ دوسروں کو بھی صبر ورضا کی تلقین فرمایا کرتے، چنانچہ حضرت مولانا عرفان علی صاحب بیسلپوری کے صاحبزادے کے وصال پر اُن سے تعزیت کرتے ہوئے اپنے مکتوب محررہ 1336ھ میں تحریر فرماتے ہیں:
انتقال ِبرخوردار معلوم ہوااِنَّا لِلّٰہِِ وَاِنَّا اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡن اللہ کا ہے جو اس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا، اور ہر چیز کی اس کے یہاں عمر مقرر ہے ،اس سے کمی بیشی نامتصورہے ، بے صبری سے گئی چیز واپس نہیں آ سکتی ہاں! اللہ کا ثواب جاتا ہے جو ہر چیز سے اعزواعلی ہے اور محروم تو وہی ہے جو ثواب سے محروم رہا۔
صحیح حدیث میں ہے:
جب فرشتے مسلمان کے بچے کی روح قبض کر کے حاضر ِ ِبار گاہ ہوتے ہیں تو مولیٰ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے(اور وہ خوب جانتا ہے)کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کر لی؟، عرض کرتے ہیں’’ہاں! اے رب ہمارے‘‘ فرماتاہے’’کیا تم نے دل کا پھل توڑ لیا‘‘عرض کرتے ہیں ’’ہاں !اے رب ہمارے‘‘فرماتا ہے پھر اُس نے کیا کہا ؟عرض کرتے ہیں’’تیری حمد بجالایا اور الحمد للہ کہا‘‘فرماتا ہے’’گواہ رہو میں نے اُسے بخش دیا اور جنت میں اس کے لیے مکان تیار کر واور ا س کا نام بیت الحمد رکھو‘‘۔ (مکتوبات اعلیٰ حضرت از مولانا پیر محمود احمد صاحب مکتبہ نبویہ لاہور ص113)
صابروں کو بے حساب اجر دیا جائے گا
اِنہی کے نام دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
اُسی کاہے جو اُس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا ،اور ہر چیز کی اس کے یہاں ایک عمر مقرر ہے جس میں کمی بیشی نامتصور ہے اور محروم تو وہ ہے جو ثواب سے محروم رہا بے صبری سے جانے والی چیز واپس آئے گی؟ ہرگز نہیں، مگر مولیٰ تبارک و تعالیٰ کا ثواب جائے گا ۔ وہ ثواب کہ لاکھوں جانوں کی قیمت سے اعلیٰ ہے ۔توکیا مقتضائے عقل (عقل کا تقاضا)ہے کہ کھوئی ہوئی چیز ملے بھی نہیں اور ایسی عظیم ملتی ہوئی دولت (یعنی ثواب)خود ہاتھ سے کھوئی جائے ،صابروں کو اجر حساب سے نہ دیا جائے گا بلکہ بے حساب یہا ں تک کہ جنہوں نے صبر نہ کیا تھا روز ِ قیامت تمنا کریں گے کاش! اُن کے گوشت قینچیوں سے کترے جاتے اور یہ ثواب پاتے ۔
دوسرے کے جانے کی فکر اس وقت چاہیے کہ خود جانا(مرنا) نہ ہو اورجب اپنے سر پر بھی جانا رکھا ہے تو فکر اس کی چاہیے کہ جانا اچھی طرح ہو، کہ وہاں مسلمان عزیزوں سے نعمت کے گھر میں ایسا ملنا ہو کہ پھر کبھی جدائی نہیں۔
’’لاحول شریف‘‘کی کثرت کیجئے اور ساٹھ بار پڑھ کر پانی پر دم کر کے پی لیا کیجئے ۔آپ بفضلہ تعالیٰ عاقل ہیں،اوروں کو ہدایت ِ صبر کیجئے ،سب کو دعا و سلام ۔ (مکتوبات اعلیٰ حضرت از مولانا پیر محمود احمد صاحب مکتبہ نبویہ لاہور ص114)
حق گوئی
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی بھی حق بات کہنے میں نہ ہچکچائے ،اپنا ہو،پرایاہو، بڑاہو، چھوٹا ہو،حاکم ہو،یا محکوم الغرض آپ نے ہمیشہ حق بات کہی،حق گوئی کی صفت بچپن ہی سے آپ میں نمایا ں رہی چنانچہ۔
یہ تو جواب نہ ہوا
ایک دن آپ کے استاد ِگرامی بچوں کوتعلیم دے رہے تھے کہ ایک لڑکے نے سلام کیا استاد نے جواب میں فرمایا ’’جیتے رہو‘‘اس پر حضورِ اعلیٰ حضر ت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ تو جواب نہ ہوا’’وعلیکم السلام‘‘کہنا چاہیے تھا آپ کے اس جذبہء اظہار پر آپ کے استاد بے حد مسرور ہوئے اور آ پ کو بڑی بڑی نیک دُعاؤں سے نوازا۔
قربان جائیے !آپ کو ابتدائے عمر ہی میں اِسلام کا کتنا بلند فکر و شعور عطا ہو ا تھا۔ (مجدد اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 37)
فتاویٰ لکھنے میں اظہارِ حق
اعلیٰ حضرت کی عمر شریف ابھی صرف 19-20سال تھی اور آپ کو فتاویٰ تحریر کرتے ہوئے تقریباً 6 سال ہوچکے تھے کہ آپ کے ساتھ یہ دلچسپ واقعہ پیش آیا جس سے آپ کی حق گوئی و حق پسندی کا اندازہ ہو تا ہے ،چنانچہ:
ایک صاحب ’’رام پور‘‘ سےحضرتِ اقدس مولاناشاہ نقی علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم ِگرامی سن کر بریلی آئے اور ایک فتویٰ پیش کیا ، جس میں جناب مولانا ارشاد حسین مجددی رامپوری(صاحب ِ ارشاد الصرف) کا فتویٰ تحریر تھا ،جس پر اکثر علمائے کرام کی مہریں اور دستخط تھے۔ حضرت مولانا شاہ نقی علی خان صاحب نے فرمایا کہ کمرے میں مولوی صاحب ہیں اُن کو دیدیجئے جواب لکھ دیں گے ،وہ کمرے میں گئے اور واپس آکر عرض کیا کہ وہاں تو کوئی مولوی صاحب نہیں ہیں ،فقط ایک صاحبزادے ہیں ۔
حضرت نے فرمایا’’اُنہیں کو دے دیں وہ لکھ دیں گے‘‘۔انہوں نے عرض کی :حضور میں تو آپ کا شہر ہ سن کر آیا ہوں ،حضرت نے فرمایا’’آج کل وہی فتویٰ لکھا کرتے ہیں اُنہیں کو دے دیجئے‘‘غرض ان صاحب نے یہ فتویٰ اعلی حضرت کی بارگاہ میں پیش کر دیا ۔
اعلیٰ حضرت نے جو اس فتویٰ کو دیکھاتو ٹھیک نہ تھا۔ آ پ نے اس جواب کے خلاف جواب تحریر فرما کر اپنے والد ِماجد کی خدمت میں پیش کیا اورحضرت مولاناشاہ نقی علی خان صاحب نے اس جواب کی تصدیق فرما دی ۔
حق وہی ہے جو اعلیٰ حضرت نے لکھا
وہ صاحب اِس فتوے کو لے کر رامپور پہنچے،(یہ فتویٰ دراصل نواب آف رامپور ہی کی طرف سے تصدیق کے لیے بھیجا گیا تھا )جب نواب آف رامپور(نواب کلب علی خان) کی نظر سے یہ فتویٰ گزرا توشروع سے آخر تک اس فتوے کو پڑھا۔ اورمولانا ارشادحسین صاحب کو بلالیا،آپ تشریف لائے تو وہ فتویٰ آپ کی خدمت میں پیش کیا ۔
مولاناارشادحسین صاحب کی حق پسند ی و حق گوئی ملاحظہ ہو ،صاف فرمایا’’فی الحقیقت وہی حکم صحیح ہے جو بریلی شریف سے آیا ہے‘‘نواب صاحب نے پوچھا پھر اتنے علماء نے آپ کے جواب کی تصدیق کس طرح کر دی ۔ فرمایا اُن حضرات نے مجھ پر میری شہرت کی وجہ سے اعتما دکیا اور میرے فتویٰ کی تصدیق کر دی ورنہ حق وہی ہے جو اِنہوں نے لکھا ۔۔۔۔۔۔یہ سن کر کہ اعلیٰ حضرت جنہوں نے یہ فتویٰ لکھا ہے کی عمر شریف صرف 19-20سال ہے، نواب صاحب کو ملاقات کا شوق ہوا ۔
(اعلیٰ حضرت کی شادی رامپور میں جنابِ شیخ فضل حسین صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی تھی، شیخ فضل حسین صاحب رامپور کے ڈاک خانے میں اعلیٰ افسر کی حیثیت سے تھے اور نواب صاحب کے مقربین میں سے تھے ۔ اُن کے ذریعے نوا ب صاحب اعلیٰ حضرت سے ملاقات کے متمنی ہوئے ۔)
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی انفرادی کوشش
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ قرآنِ پاک کی اِس آیت ۔
‘‘اُدْعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ’’
ترجمہ کنز الایمان :اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے ۔(سورۃ النحل 125)کے خصوصی فیض سے فیض یافتہ تھے ۔
مولانا حسنین رضا خان صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ’’سیرت ِ اعلیٰ حضرت‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
اعلیٰ حضرت قبلہ ہر شخص سے اُس کی سمجھ کے موافق بات چیت کرنے کی مہارت رکھتے تھے، وہ ہر شخص سے اُس کی سمجھ کے موافق بات چیت کرتے تھے۔ایسے موقع پر اُن کی زبانِ مبارک سے جو الفاظ نکلے وہ ان کے ہر مخاطب کے دل میں اتر گئے، اس واسطے کہ انھیں اپنی بلند سطح سے ہر شخص کی سطح پر اتر کر بات چیت کر نے کا پورا ملکہ تھا، اور ارشادِ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پورے عامل تھے سرکا رصَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:
‘‘کَلِّمُوالنَّاسَ عَلٰی قَدْرِعُقُولِھِمْ’’
“لوگوں سے ان کی سمجھ کے موافق بات چیت کرو۔”
سجدہ کیاآپ ٹھوڑی پر کرتے ہیں؟
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ محب اللہ خان صاحب مرحوم جو بڑے پکے نمازی تھے، (وہ بہت غریب اوربڑے اکھڑ پٹھان تھے اور سوداگر ی محلہ میں رہتے تھے ۔)وہ کبھی اعلیٰ حضرت کی ملازمت کرتے تھےاورکبھی وہاں سے ناراض ہو کر حلوائی کا خوانچہ لگا لیتے تھے، یوں اُن کی گذراوقات تھی۔
ایک مرتبہ ظہر کی نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہوئے اور انھوں نے سنتوں کی نیت کی، اعلیٰ حضرت اس وقت وظیفہ پڑھ رہے تھے، وہ اپنے وظیفے میں دوسرے نمازیوں کی نگرانی فرماتے تھے کہ و ہ کس طرح نماز ادا کر رہے ہیں ۔
محب اللہ خان صاحب کو اعلیٰ حضرت نے دیکھا کہ وہ رکوع میں اوپر کو سر اٹھا ئے ہوئے جانب ِ قبلہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ جب انھوں نےسلام پھیر ا تو اعلیٰ حضرت نے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ رکوع میں آپ سر اُٹھائے آگے کو کیوں دیکھتے ہیں ؟وہ بولے’’تو کیا میں رکوع میں کعبہ سے منہ پھیر لوں‘‘اعلیٰ حضرت نے فرمایا: کہ سجدہ آپ کیا ٹھوڑی پر کرتے ہیں؟اِس واسطے کہ پیشانی زمین پر رکھنے سے کعبہ سے منہ پھر جاتا ہے، اس پر وہ سناٹے میں رہ گئے ۔
مگر اِس نماز کے بعد اُنہوں نے رکوع میں حسبِ ہدایت پاؤں کی انگلیوں پرہی نظر رکھی، منہ اٹھا کر سامنے کی طر ف نہ دیکھا ۔یہ مسئلہ اگر انھیں مسئلہ کے طور پر سمجھایا جاتا تو وہ نہ سمجھ سکتے تھے اور اپنے بنائے ہوئے اصول ہرگز نہ چھوڑتے مگر اعلیٰ حضرت کے اس معارضہ نے ان کے خود ساختہ اصول کو درہم برہم کر دیا اور اس معاملے میں ان کے دماغ کی کایا پلٹ دی۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولاناحسنین رضا خان مکتبہ برکاتی پبلشرز ص100)
نماز پڑھتے نظریں کہاں رکھے
اسی سے ملتا جلتا واقعہ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘میں بھی ہے ،جنابِ سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ:
ایک مرتبہ بعد نماز ظہراعلیٰ حضرت مسجد میں وظیفہ پڑھ رہے تھے کہ ایک اجنبی صاحب نے سامنے آکرنما ز کی نیت باندھ لی، جب رکوع کیا تو گردن اٹھائے ہوئے سجدہ گاہ(جہاں سجدے میں سر رکھا جاتا ہے) کو دیکھتے رہے ۔
فارغ ہونے پراعلیٰ حضرت نے پاس بلا کر دریافت فرمایا کہ’’رکوع کی حالت میں گردن اس قدر کیوں اٹھائی ہوئی تھی؟‘‘انہوں نے عرض کیا ’’حضور سجدے کی جگہ کو دیکھ رہاتھا‘‘ فرمایا ’’سجدہ میں کیا کیجئے گا‘‘پھر فرمایا :بحالت ِ قیام نظر سجدہ گاہ پر، اور بحالتِ رکوع پاؤں کی انگلیوں پر، اور بحالت ِتسمیع سینہ پر، اور بحالتِ سجود ناک پر، اور بحالتِ قعود اپنی گود پر نظر رکھنا چاہیے ،نیز سلام پھیرتے وقت کاتبین کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے شانوں پر نظر ہونا چاہیے۔ (حیاتِ اعلی حضر ت از مولانا ظفرالدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص304)