اوصافِ جمیلہ


اعلیٰ حضرت نحیف الجثہ(کمزور جسم والے) اور نہایت قلیلُ الغذا تھے،اُن کی عام غذا چکی کے پسے ہوئے آٹے کی روٹی اور بکری کا قورمہ تھا ۔آخرِ عمر میں اُن کی غذا اور بھی کم رہ گئی تھی فقط ایک پیالی شوربا بکری کا بغیر مرچ کا اور ایک ڈیڑھ بسکٹ سوجی کا تناول فرماتے تھے۔ کھانے پینے کے معاملے میں آپ نہایت سادہ تھے۔


ایک بارآپ کی اہلیہء محترمہ نے آپ کی علمی مصروفیت دیکھ کر جہاں آپ کاغذات اور کتابیں پھیلائے ہوئے بیٹھے تھے،دستر خوان بچھا کر قورمہ کا پیالہ رکھ دیا اور چپاتیاں دسترخوان کے ایک گوشے میں لپیٹ دیں کہ ٹھنڈی نہ ہو جائیں۔ کچھ دیر بعد دیکھنے تشریف لائیں کہ حضرت کھانا تناول فرماچکے یا نہیں تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ سالن آپ نے نوش فرما لیا ہے لیکن چپاتیاں دسترخوان میں اُسی طرح لپٹی رکھی ہوئی ہیں،پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ: چپاتیاں تو میں نے دیکھی نہیں،سمجھا ابھی نہیں پکی ہیں لہٰذامیں نے اطمینا ن سے بوٹیاں کھا لیں، اور شوربا پی لیاہے۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج۱، ص۵۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)

روزہ میں ایک وقت کھانا

ماہِ رمضان المبارک میں تو آپ کی غذابالکل ہی قلیل ہو جاتی، مولانا محمد حسین صاحب میرٹھی بیان کرتے ہیں کہ ایک سال میں نے بریلی شریف میں رمضان شریف کی 20تاریخ سے اعتکاف کیا ،حضورِ اعلیٰ حضرت جب مسجد میں آتے تو فرماتے جی چاہتا ہے کہ میں بھی اعتکاف کروں مگر فرصت نہیں ملتی ،آخر 26ماہ مبارک کو فرمایا کہ آج سے میں بھی معتکف ہو جاؤں(اور آپ معتکف ہو گئے)۔ آپ افطار کے بعد صرف پان کھالیتے اور سحر کے وقت ایک چھوٹے سے پیالے میں فیرنی اور ایک پیالے میں چٹنی آیا کرتی تھی ایک دن میں نے عرض کی حضور!فیرنی اور چٹنی کا کیا جوڑ؟فرمایا: نمک سے کھانا شروع کرنا اور نمک ہی پر ختم کرنا سنت ہے۔ (مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 95)